سعودی عرب میں 24ممالک کی مشترکہ جنگی مشقیں اختتام پذیر ہوگئیں جس کو دیکھنے21ممالک کے سربراہ وہاں گئے ان میں وزیراعظم پاکستان بھی شامل تھے جو پاکستانی فوج کے سربراہ کے ساتھ وہ جنگی مشقیں دیکھنے گئے تھے ظاہر ہے کہ مقصد جنگی مشقیں دیکھنا نہیں تھا بلکہ آپس میں صلح اور مشورے بھی کرناتھا ۔ معلوم ہوتا ہے ہے کہ صلح و مشورے مکمل ہوگئے کسی طرف سے اختلافی بیان سامنے نہیں آیا ہے یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سب لوگ متفق ہوگئے ہیں کہ موجودہ صورت حال سے کس طرح نمٹنا ہے ۔ اسی دوران یہ خبر بھی آئی تھی کہ پاکستانی فوج کے کماندار اعلیٰ کو اس اسلامی فوج کا سربراہ بنانے کی تجویز ہے ۔ اس پر بھی خاموشی ہے اور کوئی رد عمل نہیں آیا یا ممکن ہے کہ اس تجویز کو نظر انداز کردیا گیا ہو ۔ تاہم یہ ایک اہم تجویز تھی بہر حال اس پر کوئی فیصلہ کرنا حکومت کاکام ہے ۔ ان جنگی مشقوں سے ان خدشات کو زیادہ تقویت مل رہی ہے کہ مغربی ایشیاء میں جنگ کے بادل تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں جورکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہے، معاملہ ابھی بھی شام میں الجھا ہوا ہے اگر روس اور امریکا میں شام کے معاملے پر مصالحت ہوجاتی ہے تو جنگ کے امکانات ختم تو نہیں ہونگے مگر بڑی جنگ نہیں ہوگی اور چھوٹی چھوٹی مقامی جھڑپیں جاری رہیں گی۔ یہ سارا اتحاد ایران کے خلاف معلوم ہوتا ہے یمن پر حوثی قبائل کے قبضے کے بعد خطے میں ایک خوف کا ماحول پیدا ہوگیا کہ ایران پراکسی وار کے ذریعے ان تمام چھوٹے چھوٹے گلف کے ممالک پرقبضہ کرے گا اور اپنے انقلاب کو دوسرے ممالک کو برآمد کرتا رہے گا یہ بڑا اتحاد صرف اسی طو فان کو روکنے کے لئے بنایا گیا ہے ۔ پاکستان کے سعودی عرب اور گلف ممالک سے قریبی تعلقات ہیں اور پاکستان کی یہ مجبوری بن چکی ہے کہ وہ ایران کا ہمسایہ ہونے کے باوجود سعودی عرب اور گلف ممالک کا ساتھ دے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ امداد کس حد تک جائے گی ایران کے حالیہ میزائل تجربات نے مغربی دنیا میں ہلچل پیدا کردی ہے اور ایران کا برملا اعلان ہے کہ وہ دورمار میزائل صرف اسرائیل کو نشانہ بنانے کے لئے بنا رہا ہے اگر جنگ ہوئی تو ایران یہ میزائل اسرائیل کے خلاف استعمال کرے گا ۔امریکا نے اپنے نائب صدر کو اسرائیل روانہ کیا تاکہ اسرائیل کو امریکی امداد اور دفاع کی یقین دہانی کرائی جائے۔ ایران نے یہ میزائل زمین دوز سرنگوں سے فائر کیے تھے ۔ ادھر امریکا نے اعلان کررکھا ہے کہ بمبار طیارے چالیس ہزار ٹن وزنی بم ان زمین دوز تنصیبات پر گرائیں گے اور ان کو استعمال سے پہلے تباہ کردیں گے ۔ امریکی حکام کی طرف سے یہ دھمکی کئی ماہ سے پہلے آچکی ہے امریکا اس فوجی اتحاد کی بھی پشت پناہی کرے گا اور ان کو ہر قسم کی امداد فراہم کرے گا جس کی ان کو ایران کے ساتھ جنگ میں ضرورت ہو ۔ پاکستان کے تعلقات آج کل بھارت سے زیادہ کشیدہ ہیں اور پاکستان ان کشیدگیوں کو کم کرنے کی کوشش کررہا ہے اگر اس میں کامیاب ہوگیا تو پھر توجہ اسلامی اتحاد کی طرف ہوگی ورنہ یہ مشکل کام ہے۔