یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ وزیر اعلیٰ نے بلوچستان میں مقامی اخبارات کی ترقی کے لئے اپنے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام کو ان کے مسائل جلد سے جلد حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ نظر انداز صوبہ ہے۔ وفاق میں اس کی کوئی بات نہیں سنتا، ہمارے نمائندے وفاقی پارلیمان میں جو کچھ کہتے ہیں وہ میڈیا کی زینت نہیں بنتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمان میں بلوچستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ تھوڑا بہت چھپا وہ بھی ہمارے بڑے بڑے رہنماء اور بزرگ پارلیمان یا مغربی پاکستان اسمبلی کے اراکین تھے۔ ان میں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل، نواب بگٹی، نواب مری، میر احمد نواز بگٹی، باقی بلوچ اور ڈاکٹر حئی۔ ان کی آواز کبھی کبھی سنائی دی ورنہ پاکستانی میڈیا نے باقی سب کو نظر انداز کردیا، قومی اسمبلی کا پورا ایوان اس وقت ششدر رہ گیا جب رؤف مینگل نے اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا بلوچستان میں فوجی کارروائی کے خلاف احتجاج کے طور پر۔ پورے پاکستان میں اس بات کا تصور تک ہی نہیں ہے کہ رکن قومی اسمبلی صرف احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے سکتا ہے۔ اس کے باوجود بلوچستان اور اس کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کیا جاتا رہاہے اور کیا جاتا رہے گا تاوقتیکہ بلوچستان کی حکومت صرف اور صرف مقامی اخبارات کی سرپرستی نہیں کرتی۔ دوسرے صوبوں کے اخبارات اور میڈیا کو بلوچستان اور اس کے عوام سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ ان کو صرف دولت سے دلچسپی ہے، کروڑوں کے بجائے اربوں کمائیں، ملک ،عوام اور حکومت بھاڑ میں جائیں۔ ایسی صورت حال میں کارپوریٹ میڈیا کی سرپرستی کرنا بلوچستان حکومت کے لئے سود مند نہیں ہے۔ ہمارے ایک سیاسی پارٹی کو کارپوریٹ میڈیا سے زبردست شکایت رہی ہے، ان کے رہنماء پریس کانفرنس کرکے کارپوریٹ میڈیا پر برستے رہے مگر مجال ہے کہ کارپوریٹ میڈیا کا اخبار ان کی پریس ریلیز یا اس کی فراہم کردہ خبر کو چھاپ دے۔ یہ صورتحال پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، اس کے باوجود ان اخبارات کو کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری ہورہے ہیں۔ اس کے مقابلے اچھے اور نامور مقامی اخبارات کو ان اشتہارات کی فراہمی میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت میں بلوچستان کے مقامی اخبارات کو وفاقی حکومت نے بڑی حد تک بلیک لسٹ کردیا ہے۔ ان کو شاذو نادر ہی ایک آدھ اشتہارخیرات میں مل جاتا ہے۔ بلوچستان حکومت کے لئے یہ ایک فکر کی بات ہے کیونکہ اس کے مسائل کو صرف اور صرف مقامی اور پروفیشنل اخبارات سمجھتے ہیں اور اسی کے مطابق حکومت کو پبلسٹی دیتے ہیں اور یہی مقامی اخبارات ہی بلوچستان اور بلوچ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اندرون بلوچستان، پاکستان یا دنیا بھر میں جس کسی شخص، ملک یا ادارے بلوچستان کے حالات ، بلوچ عوام کی سوچ یا دیگر عوامل کے بارے میں کچھ جاننا ہو یا تحقیق کرنا ہو تو وہ بلوچستان کے انہی مقامی اخبارات کو اولیت دیتے ہیں ،انہی پر اعتبار کرتے ہیں اور اسی کو بلوچ عوام کی آواز سمجھتے ہیں نہ کہ کارپوریٹ میڈیا کو جن کی صفحوں یا چینلز پر بلوچستان نظر ہی نہیں آتا کیونکہ غیر مقامی یا کارپوریٹ اخبارات بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس لئے وہ حکومت کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ جدید دور میں مقامی اخبارات نے اپنے غریبی اور کم وسائل کا حل تلاش کیا ہے اوراپنے اخبارات کو انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کردیا جاتا ہے اور یوں دنیا بھر میں بلوچستان کے اخبارت کوپڑھا جاتا ہے۔ اگر کم وسائل کی وجہ سے بعض علاقوں میں اخبارنہیں پہنچ پاتے لیکن انٹرنیٹ نے یہ کام آسان کردیا۔ ہم یہ دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں روزنامہ ’’آزادی‘‘ اور انگریزی روزنامہ ’’بلوچستان ایکسپریس‘‘ انٹرنیٹ پر بلوچستان کے مقبول ترین اخبارات ہیں اور ہزاروں لوگ ان کو صبح ہی پڑھ لیتے ہیں جن کو بلوچستان سے دلچسپی ہے۔ اسی طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے سب سے زیادہ طاقتور ترین اخبارات آزادی اور بلوچستان ایکسپریس ہیں۔ دوسرے اخبارات کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ لہٰذا حکومت ہمارے اخبارات کی سرپرستی کرے۔
بلوچستان کے مقامی اخبارات
وقتِ اشاعت : March 13 – 2016