سپریم کورٹ نے سندھ پولیس میں وسیع پیمانے پر کرپشن کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا ہے ، اس قسم کی خبریں آرہی ہیں کہ سندھ پولیس میں وسیع پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے جس میں اعلیٰ ترین افسران بلکہ سندھ پولیس کے سربراہ بھی ملوث ہیں۔ سپریم کورٹ نے پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کردی اور نیب کو حکم دیا کہ وہ اس کی تحقیقات کرے اور ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے بلکہ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے آئی جی پولیس کو تبدیل کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے اگر سندھ پولیس میں کرپشن اتنی بڑے پیمانے پر نہ ہوئی ہوتی تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی کے حالات خراب ہوتے ،جرائم پیشہ لوگ اور مافیا کراچی میں حاوی نہ ہوتا اور نہ ہی اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات اتنے بڑے پیمانے پر ہوتے ،اس میں کرپٹ پولیس افسران بھی شامل ہیں جنہوں نے کروڑوں اور اربوں روپے کمائے ہیں ۔ تقریباً 100سے زائد اغواء کاروں کے گروہ ہیں جس میں پولیس کے لوگ بھی شامل ہیں آج کل مختصر مدت کے اغواء کے وارداتوں میں پولیس کا زیادہ ہاتھ ہے ۔ یہ پولیس کے اہلکار ہیں کہ تاجروں اور امیر لوگوں کو اغواء کرتے ہیں اور فوری تاوان وصول کرکے غائب ہوجاتے ہیں بعض تھانوں میں بھی یہ وارداتیں ہورہی ہیں لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر ان سے رقم بٹوری جاتی ہے اور یہ ایک عام بات ہے ملک میں کرپشن ‘ انارکی اوربد امنی پھیلانے میں پولیس اہلکاروں کا بھی ہاتھ ہے ۔ بعض دیگر اداروں کے سرکاری اہلکار بھی آج کل ان وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں خصوصاً زمین قبضہ مافیا‘ نارکوٹیکس ‘ چرس اور شراب کی فروخت اور ایسے منظم جرائم جس میں پولیس کی شرکت لازمی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری کی پوری پولیس کرپٹ ہے بد عنوان ہے اور بے ایمان ہے، ان میں بہت اچھے افسران بھی ہیں جو دیانت داری سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں ۔ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چائیے حالیہ دور میں پولیس افسران کی ایک بڑی تعداد حکمرانوں کے ایماء پر جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کی مارتی ہے اور جھوٹے دعوے کرتی ہے کہ وہ پولیس مقابلے میں مارے گئے یا ان لوگوں کو قتل کرنا مقصود ہوتا ہے جس کے خلاف مقدمات نہیں چلانا چاہتے ۔ حالیہ سالوں میں اس قسم کے واقعات کو یکسر بند کردینا چائیے ، سزا دینا پولیس کاکام نہیں ہے خصوصاً موت کے گھاٹ اتارنا ۔ سزا دینا صرف اور صرف عدلیہ کاکام ہے ۔ لہذا ہماری اعلیٰ عدالتوں سے اپیل ہے کہ وہ ہر ان مقدمات کی تحقیقات کرائیں جس میں شبہہ ہو کہ پولیس نے جعلی مقابلے میں لوگوں کو مارا ہے ۔ انسانی جان کی قیمت اور قدر ہونی چائیے وہ بھی پاکستانی ہیں اور معصوم ہیں تاوقتیکہ ان کے خلاف عدالت میں جرم ثابت نہیں ہوجاتا، کسی پولیس افسر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جعلی مقابلوں میں کسی کو ہلاک کرے ۔حکومت ، انتظامیہ اور حکمران اس بات کا نوٹس لیں کہ بڑی تعداد میں لوگ جعلی مقابلوں میں مارے گئے ہیں ان سب کے خلاف کارروائی ہونی چائیے جو اس میں ملوث پائے گئے ۔
پولیس میں کرپشن
وقتِ اشاعت : March 15 – 2016