|

وقتِ اشاعت :   March 16 – 2016

گذشتہ صدیوں میں ممالک کے درمیان جنگیں اسلحہ و گولہ بارود سے لڑی جاتیں تھیں مگر 21 ویں صدی میں اسلحہ و گولہ بارود کی جنگیں اقتصادی جنگوں میں تبدیل ہو گئی ہیں اب ممالک کے درمیان معیشت کی جنگ جاری ہے جس ملک کی معیشت جتنی مظبوط ہو گی وہ ریاست اُتنی ہی طاقت ور ثابت ہو تی ہے اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں کلیدی کردار تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ہوتا ہے اس لیے ریاست کو اقتصادی ترقی میں وسعت دینے کے لیے مستقبل قریب میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اشد ضرورت ہو گی جس کے لیے ہمیں تعلیم پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے تعلیم کے شعبہ پر توجہ نمایاں نظر آتی ہے جو واقعی قابل تحسین ہے محکمہ تعلیم نے تعلیمی ایمریجنسی جیسے بلند و بانگ دعوے تو کر رکھے ہیں جن میں ایک قدم نقل کی روک تھام بھی ہے جس کے حوالے سے تقریباََ صوبے بھر کے اضلاع میں حکومت کی طرف سے مہم بھی دیکھنے میں آئی۔ جس میں مختلف اجلاس اور سیمینارز منعقد کئے گئے تھے اس وقت بلوچستان میں میٹرک کے امتحانات جاری ہیں جن میں ایک لاکھ پندرہ ہزار اُمیدوار حصہ لے رہے ہیں ان نہم ،دہم کے امتحانات میں نقل کی بندش کیلئے بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان کے حکام پُر عزم دکھائی دیتے ہیں بلوچستان میں پہلی بار فنگر پرنٹ سسٹم بھی متعارف کرایا گیا ہے حاضری شیٹ پر طلباء اپنے انگوٹھے کا نشان لگا ئیں گے اس اقدام کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص اُمیدوار کی جگہ امتحان نہیں دے سکے گا جبکہ بلوچستان بورڈ نے نقل کو روکنے کے لیے ٹیمیں بھی تشکیل دے رکھی ہیں جس میں سپروائزری اسٹاف کے ساتھ ساتھ اسکول کے سینئر افسران تمام امتحانی مراکز کا دورہ کریں گے اور ضلعی انتظامیہ جن میں ڈی سی ، اے سی بھی سینٹروں کا دورہ کریں گے یقیناًیہ تمام اقدامات امتحانات کو بہتری کی طرف لے جائیں گے کیونکہ نقل ایک ناسور ہے جو دیمک کی طرح اس معاشرے کو چٹ رہا ہے جسے ہمیں روکنا ہو گا مگر ساتھ ہی محکمہ تعلیم کو اس طرف بھی توجہ دینا ہو گا کہ آیا ایسے کونسے عوامل ہیں جو ان طلباء و طالبات کو نقل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں نظام تعلیم میں ایسی کون سی خامیاں ہیں جس کے باعث نقل کا رجحان اپنے عروج پر ہے بلوچستان بورڈ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی فوٹو اسٹیٹ مالکان کو یہ انتباہ کر رکھا ہے کہ امتحانات کے اوقات میں دکانیں بند رکھیں میرے نزدیک فوٹواسٹیٹ مالکان کو دھمکی دینے کے بجائے بورڈ کو یہ معلومات لینی چاہیں کہ ان تک پرچہ سوالات آخر امتحان شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پہنچتا کیسے ہے لازمی بات ہے کہ امتحانی مراکز میں یا پھر بورڈ آفس کے عملے میں ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو کچھ پیسوں کے عوض صوبے کے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ پرچہ آؤٹ ہونے کے بعد ہی 100 روپے سے 600 روپے تک تمام سوالوں کے جوابات پر مشتمل سیٹ تمام شہر میں گردش کرنے لگتا ہے اور مختلف طریقوں سے ہیلپرز کے ذریعہ یہ سیٹ متعلقہ اُمیدوار کو پہنچ جاتا ہے جس کی مدد سے اُمیدوار پرچہ چھاپ کر باآسانی ڈگری وصول کر لیتا ہے لیکن جب میرٹ کی بات آتی ہے تو و ہی طالب علم ملازمت کے حصول کے لیے معیار پر پورا نہیں اُترتا محکمہ تعلیم کو سمجھنا ہو گا کہ فوٹواسٹیٹ کی دوکانیں بند رکھنا مسئلے کا حل نہیں بورڈ کو ایسے عناصر کے خلاف سخت کاروائی کرنا ہو گی جو پرچہ آؤٹ کرتے ہیں اور پھر جوابات لکھ کر فوٹواسٹیٹ کا سہارا لیتے ہیں جہاں تک اسکول سسٹم کی خامیوں کی بات کی جائے تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جو اُستاد آج سے سات سال پہلے تک چھٹی کلاس سے ABC پڑھاتے تھے وہی اُستاد آج نصاب کی تبدیلی کے بعد چھٹی کلاس میں مشکل سے انگریزی پڑھا رہے ہیں اسی طرح دوسرے مضامین بھی ہیں جو اب تبدیل ہو چکے ہیں جو اساتذہ کو پڑھانے میں مشکلات سے دوچار کر رہے ہیں جس کا ثبوت اساتذہ کا امتحان لے کر حاصل کیا جا سکتا ہے طالب علم پر نقل بند کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی ایسی تربیت دینا ہو گی جس سے اساتذہ استفادہ کر کے طالب علموں کو بہتر طریقے سے پڑھا سکیں گے۔ جو طالب علم کے لیے نقل کا سہارا مکمل ختم کرنے میں مدد دے گا اسی طرح حکومت کو سرکاری سکولز کی کلاسوں میں بچوں کی تعداد پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔کلاس میں بچوں کی تعداد زیادہ کی ہونے کی وجہ سے اُستاد ہر ایک بچے پر اُس طرح دھیان نہیں دے پاتا جس کا وہ مستحق ہے اس وقت بیشتر سرکاری اسکولوں میں ایک کلاس میں ساٹھ ستر کی تعداد میں بچے موجود ہیں۔ آدھے گھنٹے کے پیریڈ میں ہر ایک بچے کی کی کاپی چیک کرنا بھی اُستاد کے لیے کوئی آسان کام نہیں جب تک حکومت ان بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دے گی تب تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے ۔ان اقدامات سے نقل پرتوقابو پایا جا سکتا ہے مگر بچوں کو امتحان میں فیل ہونے سے نہیں بچایا جا سکتا۔