سب بے بس دیکھ رہے تھے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ کہتے تو کیا کہتے کرتے تو کیا کرتے کیونکہ سب دوست قلم اور سفید کاغذساتھ لے کر دنیا کے سامنے یہی بے بسی تولنا چاہ رہے تھے جو انہیں نظر آرہی تھی ۔۔۔
سفید رنگ کی چھوڑیاں پہنے وہ حیرت زدہ انکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔
گود میں چند ماہ کا بچہ، سامنے ہلاک بکری ، سائڈ پر خوبصورت مور کا مردہ جوڑہ اور دوسری طرف ہمارے چند ساتھی کھڑے تھے اسکی انکھوں میں آنسو تھے پر وہ رو نہیں رہی تھی شاید وہ رونا چاہ رہی تھی مگر کس کس پر روتی ؟چند قدم آگے جھونپڑی کے قریب دو نوجوان چارپائی کندھوں پر اٹھاے قبرستان سے آرہے تھے پوچھا تو بتایا گیا کہ ایک گھر کے دو بچوں کو دفنا کر واپس آرہے ہیں کسی نے ایک خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بد قسمت ماں کے بچے تھے اب تک بے چاری کے چاربچے فوت ہو چکے ہیں صرف ایک بیٹی رہ گئی ہے وہ بھی موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے۔آپ حیران ہونگے کہ میں کس جہاں اور کس ملک کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ جی یقیناًمیں کسی افریقی ملک کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ مملکت خداد کے صوبہ سندھ کے ضلع تھر پارکھر کی بات کررہا ہوں۔۔ یہ تو صرف دو مناظر آپکے سامنے بیان کر چکا ہوں ایسی ہزاروں داستانیں ہیں یہاں ہر چھونپڑی اور جھونپڑی نما گھر کا یہی حال ہے صف ماتم بچھ چکی ہے کوئی مرے ہوئے کی یاد میں رورہا تھا تو کوئی سامنے پڑے مرنے والے پر۔۔ہم صحافی دوست کاغذ سیاہ کرنے کے ساتھ ساتھ چند ایک آنسو بھی بہارہے تھے مرنے اور برائے نام زندہ بچ جانے والوں کے لیے۔۔۔
اس سے زیادہ توخود کی بے بسی اور حکمرانوں کی لاپرواہی پررونا آرہا تھا۔تھرپارکھر پاکستان کے بڑے اور کوئلے کے ذخائرکے لحاظ سے مالا مال ضلعوں میں شمارہوتا ہے۔۔ یہاں ریگستان کے بڑے بڑے ٹھیلے ہیں۔ مون سون کے موسم میں جب یہاں قدرت مہربان ہو کر بارش برساتی ہے تو یہ جنت صغیر کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔مگر قدرت جب منہ موڑ لیتا ہے تو تھر کی زمین بھی روٹ جاتی ہے اورپھر پھولوں جیسے بچے اور مور جیسے پرندے نگلنا شروع کر دیتی ہے۔ خوبصورت مور تو آپ نے دیکھے بھی ہونگے اور اسکے بارے میں سنا بھی ہوگا وہ اسی سرزمین سے ہے۔ مگر افسوس یہاں انسان، چرند و پرند مملکت خداداد کے ٹھیکداروں کی بے حسی اور لاپرواہی سے موت کی وادی کے جبراً مسافر بنے ہوئے ہیں۔کوئی اس تاریک وادی میں گم ہوا ہے تو کوئی اسی راستے پر جانے کی تیاری میں ہے شاید واپسی کی کوئی امید دکھائی جو نہیں دیتی۔۔۔ اسی لیے سب ایک ایک کرکے اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔یقیناً تھر کے بچوں کو تھر کی بھوک اور افلاس کی کربناک زندگی سے موت میٹھی، بہتر اور آرام دہ نظر آرہی ہے جو ہر روز درجنوں کے حساب سے موت کو گلے لگا رہے ہیں۔اس سے بھی زیادہ تو اہم وجہ یہ ہے کہ سرداروں، وڈیروں، نوابوں ،راڑوں ، اربابوں ،میاںؤں ، زرداروں۔جاگیرداروں نے انہیں کبھی زندگی کا وہ چہرہ غلطی سے بھی نہیں دیکھا ہے جو وہ موت کے بجائے زندگی کو گلے لگاتی۔تھر پارکر کی زمین چیخ چیخ کر صاحب اقتداروں سے پوچھ رہی ہے کہ متحدہ ہندوستان کے دور میں نہ تو کوئی پیاس سے ہلاک ہوا نہ بھوک سے۔۔۔ نہ ہی کسی دوسری بیماری سے۔۔ تھر کے ہندؤوں کی ہر چھونپڑی اور ہر مندرسے یہ صدا آرہی تھی کہ جب یہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی تو نہ مسلمان کے بچے مر رہے تھے نہ ہندوؤں کے بچے، آج تو سب مر رہے ہیں۔کیوں؟
(میں تو لاجواب تھا )اب چونکہ ہندوستان کی تقسیم کو ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر تھر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے بجائے مردوں کی اکثریت بڑھتی جارہی ہے اسی لیے زندہ بھی اب مردوں کے قافلے میں شامل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔تھر میں کم عمر بچوں کی اموات اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کتنے ہزار بچے مر چکے ہیں سوال تو یہ ہے کہ کتنے ہزار بچے زندہ رہ چکے ہیں اور کتنے سوکا زندہ رہنے کی امید ہے ؟ہزاروں سے سووں تک کاکیوں نہ کہوں ؟ موت کا رقص جو بھر پور انداز سے جاری ہے۔۔ اوردوسری طرف ملک کا سب سے بڑا مسئلہ۔۔ میرا، ریما۔ عمران خان ، الطاف بھائی ، میاں صاحبان، اور نومولود نامعلوم پارٹی جو ہے ایسے میں اینکر پرسنز اور قوم پر بٹھائے گئے حکمرانوں اور بنائے گیے بڑوں کو کیا فکر۔ناامیدی گناہ ہے مگر شرط یہ ہے کہ کچھ کرنے کا پکا ارادہ ہو میں خود تو ناامید نہیں ہوں مگر اے سن لو ہوش کے ناخن لو اے بڑے محلوں میں عیاشیاں کرنیوالو، ان جھونپڑیوں میں رہنے والے موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا انسانوں پر رحم کرو۔۔۔۔ ورنہ انکی آہیں آپکے محلوں کے روشن چراغوں کو ایک دن گل کر دینگے۔اس بے بسی پر مشہور سندھی شاعر شیخ ایاز نے کیا خوب کہا ہے سندھی سے اردو میں ترجمہ کچھ یوں ہے۔۔
(خدا کومخاطب کرتے ہوئے )
ایک بار نیچے اتر کے تو آو
یہ جو جہاں آپ نے بنائی ہے اسکو دیکھ کے جاؤ
ایک بار سوکھی روٹی ، کالے گھڑکاذائقہ چک کے جاؤ
کونسے لوگ ؟
تیرے لوگ۔
اپنے بندوں پہ نشان لگا کے جاؤ۔۔
۔ ایک بار نیچے اترکے توآو
نیچے اتر کے تو دیکھ
وقتِ اشاعت : March 16 – 2016