ہمیں اپنے بلوچ ہونے پرفخر ہے اورلیاری سمیت کراچی کے بلوچوں کابلوچستان سے رشتہ کوئی ختم نہیں کرسکتا۔۔
یہ تاریخی الفاظ دھیمے لہجے میں سخت اورکھری باتیں کرنیوالے سینئرصحافی،سیاسی کارکن اور استادلطیف بلوچ کے ہیں۔
لطیف بلوچ نے سیاسی،علمی،ثقافتی اور کھیلوں کے حوالے سے زرخیزعلاقے لیاری میں آنکھ کھولی۔ جوان ہوئے توبلوچ طلبہ کی تنظیم بی ایس اوکی بنیادرکھنے والوں میں شامل ہوئے۔
میرغوث بخش بزنجوجیسی قدآورکے تلامذہ میں شامل ہونیکااعزازملا۔ سترکے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے حصہ لیا۔ اسی دورمیں صحافت کے خاردارمیں قدم رکھا۔
جس کاآغاز پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سے کیا اور پھر 1970 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان کی حکومت میں انفارمیشن آفیسر بن گئے۔ جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت گراکر نیپ پر پابندی لگائی گئی تو سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیربخش مری، میرغوث بخش بزنجوِ، سینئر صحافی اور مصنف صدیق بلوچ، لطیف بلوچ سمیت دیگررہنماؤں کو گرفتار کرکے انہیں حیدرآباد جیل میں قید رکھا گیا۔ لطیف بلوچ کے لیے یہ تیسری جیل یاتراتھی،اس سے قبل وہ بلوچستان میں مظالم کیخلاف احتجاج کی پاداش میں 1965 میں اور1970 میں جیل جاچکے تھے۔
خاکسارکی لطیف بلوچ سے پہلی ملاقات بلوچ اتحادتحریک کے قائدانوربھائی شہدکی برسی کے موقع ہوئی،اس وقت ہم نئے نئے صحافت کے میدان میں اترے تھے اورخبربھی ٹھیک سے نہیں بناسکتے تھے۔
اس دن لطیف بلوچ صاحب نے چندلمحوں میں مختصر،جامع اورپراثر اندازمیں نہ صرف خبربنانے کی تراکیب سمجھائیں بلکہ ایک شفیق استادکی طرح اس عاجز کاحوصلہ بھی بڑھایا۔ اس کے بعدلطیف بلوچ سے اکثروبیشترملاقاتیں رہیں۔
ایک مرتبہ قصرنازمیں نیشنل پارٹی کے رہنماحاصل بزنجو کی پریس کانفرنس کے موقع پرجیسے ہی لطیف بلوچ پہنچے توراقم نے جگہ بطور استادلطیف بلوچ کے لیے کرسی چھوڑنی چاہی اورکہاکہ سرآپ آگے آجائیں تواس دوران حاصل خان نے پلٹ کرکہاکہ‘’لطیف بلوچ ہمارے بھی استادہیں۔
نہ صرف بی ایس اوکے دورمیں اس ہستی سے ہم نے بہت کچھ سیکھابلکہ آج بھی وقتاًفوقتاً ہماری رہنمائی کرتے رہتے ہیں“۔۔
لطیف بلوچ نے تین دہائیوں پرمحیط صحافتی کیریئرمیں سوائے عزت کے کوئی ذاتی منفعت نہیں کمائی۔
”ڈان“ میں ملازمت کے دوران بھی لطیف بلوچ کی لیاری اوربلوچ قوم کے لیے خدمت کاسفرجاری رہا۔علاقے میں تعلیم وتدریس ہویا سماجی مسائل کے حل کے لیے انجمن سازی،وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔
ان سے اکثرملاقاتیں گل نور اسکول میں رہیں۔
لیاری میں پرآشوب دورمیں جہاں دیگرلوگ پریشان رہے وہیں لطیف بلوچ نے بھی اذیتیں جھیلیں،ان کے مکان اوراسکول پرقبضہ تک کیاگیا،لیکن انہوں نے ہارنہیں مانی اوراپنے آگہی کے سفرکوجاری رکھا۔
”ڈان“ اخبارسے ریٹائرمنٹ کے بعدانہوں نے اپنے اسکول ہی کی عمارت میں بک ریڈرکلب کے نام سے لائبریری قائم کی جہاں صحافی اوردانشوردوستوں کے ذریعے کتابیں منگواکرلائبریری میں کتابوں کااضافہ کیا، اورلائبریری کے ہرشوکیس پرکتابیں فراہم کرنے والوں کانام بھی تحریرکرتے اوراکثرکہتے کہ برطانیہ میں جب کوئی عمارت یاکوئی لائبریری یااسکول تعمیرہوتاہے تووہاں انجینئرز،کام کرنے والوں،فنڈنگ کرنے والوں الغرض سب کانام تحریر کرکے خراج تحسین پیش کیاجاتاہے۔
ان میں سحربلوچ اور ضیاء الرحمان نے بھی کتابوں کوبہت بڑاذخیرہ فراہم کیا،یہ لائبریری صرف کتب بینی کامرکزہی نہیں بلکہ علم اورثقافت کامرکز بن گئی جہاں پرنس محی الدین بلوچ، حسین نقی، رمضان بلوچ، رمضان بامری، عابدبروہی، اختربلوچ، نادرشاہ عادل، یوسف مستی خان، عثمان بلوچ، اختربہادربلوچ، یوسف بلوچ، سیدعبدالرشید، عبدالغفورکھتری، ناصرسنگھار، ایڈووکیٹ ابراہیم رئیس، توصیف احمدخان، نداکرمانی، ڈاکٹرابراہیم بلوچ، پروفیسرعلی محمدشاہین کے فرزندپروفیسرعبدالرحمان کاکا سمیت تاریخ، سیاست، صحافت، شعروادب، طب اورموسیقی سمیت مختلف شعبوں سے وابستہ نامی گرامی شخصیات نے لیکچرزدئیے۔ بک ریڈرکلب کے زہراہتمام کئی کتابیں اورمجلے بھی شائع ہوئے، اس طرح بک ریڈرکلب کو لیاری میں علم وفن کے مرکزکی حیثیت سے جاناگیا۔
جہاں مختلف خیالات اورنظریات سے وابستہ شخصیات کواپنی بات کرنے کابھرپورموقع فراہم کیاگیاتاکہ معاشرے میں ایک بارپھر ڈائیلاگ کی فضاپروان چڑھائی جائے۔
لطیف بلوچ اپنے ہرپروگرام میں نوجوانوں کوایک ہی نصیحت کرتے کہ کوئی بھی نظریہ اختیارکرناآپ کاحق ہے لیکن انتہاپسندی سے دوررہاجائے۔
عام بلوچوں کی طرح لطیف بلوچ بھی بلوچستان کے حالات پرہمیشہ دل گرفتہ نظرآئے۔ ان کادل ہمیشہ بلوچستان اوربلوچ قوم کے ساتھ دھڑکتاتھا۔
اکبرخان بگٹی کی شہادت ہو اوراس کے بعدجاری مظالم،لاپتہ افرادیاسیاسی لوٹ مارالغرض بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ہرزیادتی اورناانصافی پرلطیف بلوچ نے کھل کرلکھا اور اپنی بساط کے مطابق دنیاکوآگاہی دی۔
عاجزنے اپنے سترہ سالہ رفاقت میں ایک بارلطیف بلوچ کو سخت لہجے میں گفتگوکرتے دیکھا،جب کلچرل ڈے کے نام پرجرائم پیشہ افرادکی سرپرستی میں تقریب کاانعقادکیاجارہاتھا اور اس کمیٹی میں دیگرسیاسی رہنماؤں،سماجی شخصیات اوردانشوروں،لکھاریوں سمیت لطیف بلوچ بھی شامل تھے تاہم لطیف بلوچ نے ایک ملاقات کے دوران بتایاکہ انہوں نے اپنے آپ کواس معاملے سے الگ تھلگ رکھا ہے۔
”جرائم پیشہ لوگ جہاں ہوں گے لطیف وہاں نہیں ہوں گے“ ان کاصرف ایک ہی خواب تھاکہ لیاری اوربلوچ بھی دنیاکی دیگرترقی یافتہ اقوام کی طرح ترقی کی منازل طے کرے۔ علم وہنرکامیدان ہویافن وثقافت بلوچ کوہمیشہ پیش پیش ہوناچاہیے اسی لیے انہوں نے کئی نوجوانوں کی تربیت بھی کی اورانہیں آگے بڑھنے کاراستہ دکھایا۔
لطیف بلوچ زندگی کی آخری سانسوں تک لکھتارہا،درجن سے زائدکتابیں شائع کرائیں،جن میں بلوچستان اور کراچی کے مسائل پر ایک نظر،میری یادیں،لیاری کامقدمہ شامل ہیں، تین کتابیں جن میں زندگی کی شاہراہ پر،آگہی کاسفر اورمیری زندگی کاسفر لطیف بلوچ نے شدیدعلالت کے دوران تحریر کرکے شائع کرائیں اورہمارے دوست ساجدبلیدی کے ذریعے دوستوں کے نام پیغام میں کہاکہ‘’زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں لہذایہ کتابیں عوام تک پہنچنی چاہئیں”۔
یوں لطیف بلوچ بارہ نومبرکودارفانی سے کوچ کرگئے۔ یقیناًماماصدیق بلوچ لالایوسف مستی خان کے بعدلطیف بلوچ کابچھڑنانہ صرف لیاری اوربلوچ عوام کے لیے بہت بڑانقصان ہے۔ یہ آگہی کے سفیرلیاری اوربلوچستان کامقدمہ لڑتے لڑتے اپنی زندگی کی شاہراہ کاسفرمکمل کرچکے ہیں، اب اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کومنزل تک پہنچانے کاسامان مہیا کریں۔