|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2023

جب عوام الناس ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی سربراہوں کو اکثر ٹی وی ٹاک شوز ، میڈیا کانفرنسز ، مباحثوں ، سیمیناروں اور اجتماعات وغیرہ کے دوران جوش اور جذبات میں گرجتے اور برستے دیکھتے ہیں تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں

کہ قائدین اور سربراہان محنت کش طبقات اور مظلوم اقوام کے حقوق اور اختیارات کے سچّے اور ثابت قدم علمبردار اور محافظ ہیں۔ ان سربراہوں کو سامراج کی ناہموار استحصالی اور غاصبانہ کیمپ اور امریکہ سمیت ظلم و بربریت کے بدترین مخالفین بلکہ دشمنوں کی شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لوگ ان عناصر کو گفتار کی بنیاد پر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگ میں اسرائیل کے خلاف نہ صرف بولتے بلکہ لڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے مگر پھر ان لفاظیوں ، زبانی جمع خرچ اور نمائشی ڈرامہ بازیوں سے( جو سامراج کے ان گماشتہ حکمرانوں کی جانب سے عوام کو بیوقوف بنا کر مطلب نکالنے اور ووٹ حاصل کرنے کیلئے رچائے جاتے ہیں) آگے عملی طور پر دونمبر کے یہ سربراہ امریکہ اور یورپ کے اشارہِ ابرو پر سب کچھ قربان کر جاتے ہیں

۔ ان کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ نوآبادیاتی دور میں انگریز (برطانوی) اور جنگ عظیم دوئم کے بعد جدید نوآبادیاتی دور کے آغاز سے اب تک امریکن اپنے ہی وطن اور عوام کے دشمن اِن سربراہوں کی دوغلی پالیسیوں اور طرز عمل کو جس روپ میں دیکھتے اور سامراجی مقاصد کی تکمیل کے خاطر استعمال کر کے ظالمانہ اغراض حاصل کرتے رہے ہیں وہ سب کچھ ثبوتوں اور دستاویزات کی شکل میں انگریزوں کے پاس موجود اور محفوظ ہیں۔ طویل دور تک سامراج کے یہ گماشتے اْن دستاویزی ثبوتوں ، شواہد اور حقائق کو چھپاتے رہے ہیں

تاکہ ان کے کردار پر چسپاں سیاہ کاریاں عوام الناس کی دست رس سے باہر رہیں جس سے ان کا بھرم قائم رہے اور یہ لوگ محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کو بیوقوف بنا کر جبر و استبداد اور معاشی استحصال کی چکّی میں پیستے رہیں۔ مگر موجودہ دور میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کے ماضی کے کردار ہوں یا پھر دورِ رواں کے، اب لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور پوشیدہ رہیں اس لیے ان گماشتوں کے کرامات پر پڑے پردے یک بیک سرکتے جا رہے ہیں ۔اب دیکھیئے ہمارے ہاں قومی شعراء اور دانشوروں میں سے ڈاکٹر اقبال کو دیگر سب پر فوقیت دے کر شاعرِ مشرق اور مفکرِ پاکستان سمجھا جاتا ہے ،

یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان ڈاکٹر اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے مگر کیا کوئی اس درخشاں حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے ہی ہندوستان کے متعلق مشہور قصیدہ لکھا تھا کہ ” سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ” ڈاکٹر اقبال کو ہم مفکر و مرشد مانتے اور ہر سال اس کی برسی مناتے ہیں اس کے برخلاف فیض احمد فیض جو کہتے تھے کہ
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہماری اشک تیری عاقبت سنوار چلے
یا ملک کی مالی بدحالی پر نوحہ کرتے ہوئے فیض نے کہا تھا کہ
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اْداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
یا یہ بھی کہ ،
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دوچار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
ان سے سبق حاصل کر کے سماج میں اصلاح لانے کے بجائے حکمرانوں نے سزا کے طور پر فیض کو غدّار سمجھا اور جیل میں ڈال دیا۔ اسی طرح ضیا ء الحق جن کے متعلق یہ خیال عام ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت بھی ہے کہ پاکستان میں وہ محمد علی جناح سے بھی زیادہ اسلامی اقدار و روایات سمیت شرعی قوانین کے نفاذ اور سربلندی کا داعی رہا ہے

بعض لوگ ان کو مصر کے سید قْطب اور ایمن الزواہری کے فکر و فلسفے سے متاثر سمجھتے تھے مگر یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ 1970ء میں کچھ مخصوص قوتوں کی ہدایات پر عمل کر کے اْن کی قیادت میں لشکر

نے 25 ہزار سے زیادہ فلسطینی مسلمانوں کو تہِ تیغ کر دیا تھا۔باخبر رپورٹرز اور دانشور لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ضیاء الحق نے فلسطین کے جتنے مسلمان باشندوں کو موت کے گھاٹ اْتار دیا تھا اْتنے تو پوری تاریخ میں اسرائیلی افواج نے نہیں مارے ہیں۔یہاں پر مدعا یہی ہے کہ یہ لوگ ظلم کے خلاف زبانی حد تک تو باتیں کرتے ہیں جبکہ عملاّ ظلمات اور تیرگی کے محافظ بھی اسی قسم کے عناصر ہی ہیں جو ذاتی اغراض کی تکمیل و تحفظ اور اختیارات کے حصول کی خاطر پانی میں آگ لگانے کی پرواہ تک نہیں کرتے۔ بات سیاست دانوں پر آ جائے تو پاکستان کے ایک دو نہیں بلکہ سارے سیاست دان مذکورہ اقسام کے صفات کے

مالک ہیں اس سلسلے میں نواز شریف ہی کو دیکھئے کہ جب تک وہ اقتدار سے باہر اور جلا وطن رہے،غیرجانبدارانہ انتخاب اور ووٹ کے تقدس کے محافظ رہے مگر اب جبکہ آثار صاف دکھائی دے رہے ہیں کہ خود انکے یا انکی بیٹی یا پھر بھائی کے اس بار وزیر اعظم بن جانے کے امکانات روشن ہیں تو وہ اپنے تمام تر دعوؤں کے ساتھ ساتھ

دعویدار ، مدعیوں اور گناہگاروں کو بھول چکے ہیں جیسے کہ ان کے دعویدار لوگوں سے کبھی کوئی گناہ و قصور یا کوئی غلط اقدام سر زد ہی نہیں ہوا؟ اور وہ فرشتوں کی طرح پاک صاف، دودھ سے زیادہ اْجلے اور شہد سے زیادہ میٹھے ہیں۔ ملک کی اسمبلیوں اور اداروں میں موجود سیاست دان سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان خواہ کہیں سے ہوں،ایک ہی مکتب کے پیداوار ہونے کے سبب یکساں ذہنیت رکھتے ہیں ان سیاست دانوں

کو مفلوک الحال عوام ، مظلوم اقوام اور جمہوری اقدار اور روایات کے ساتھ وابستگیوں سے نفرت ہے۔ ان کے تمام تر دعوے اور نعرے اس بنیاد پر ہیں کہ وہ ملک اور عوام کی لْوٹ میں مقتدرہ کے حصہ دار بن جائیں، یہ حارص لوگ پارٹی کے عام کارکنان، عوام یہاں تک کہ ملک کو آباد ہوتے بھی نہیں دیکھ سکتے اس کے برعکس اِن قائدین کی نظریں اور توجیہہ خاندان، برادری اور مخصوص طبقات پر مرکوز ہیں کہ وہ آباد رہیں

اور ارب پتی، کھرب پتی بن جائیں جبکہ کارکنان خود کشیاں کریں، عوام بھوک کے ہاتھوں نڈھال ہو کر مر جائیں اور خود ان کی کارستانیوں سے ملک چاہے نادہندہ ہو جائے قائدین کو فرق نہیں پڑتا۔ ان قائدین کی ذہنیت اور کرامات سے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے بیشمار لوگ دیکھ سکتے ہیں جو دو نہیں بلکہ ایک وقت کی روٹی کے لیئے ترستے رہتے تھے جو ان کو میسر نہیں رہتا تھا لیکن آج اِنہی قائدین کی برکات اور نوازشات سے کھرب پتی ہیں وہ جو کبھی جونپڑیوں میں رہا کرتے تھے

آج عالی شان بنگلوں میں رہتے ہیں، علاج کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور بچوں کو امریکہ ،

یورپ اور دوبئی کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے ہیں۔ بلوچ سیاست دان جو خود کو قوم پرستی کے لبادے میں پیش تو کرتے ہیں مگر درپردہ عملاً مقتدرہ کے حواری اور پیٹ کے پْجاری ہیں اسکے ساتھ وقت اور حالات کا رخ دیکھ کر یہ قائدین اقتدار کے بندر بانٹ میں زیادہ حصوں کے طلب میں بلوچ قوم اور سر زمین کو درپیش ایشوز کو بنیاد بنا کر شور مچاتے رہتے ہیں، ورنہ بلوچ قوم کے ساتھ ان بلوچ سیاست دانوں کی وفاداریاں زیرو سے بھی کمتر ہیں، زیرو بظاہر تو کچھ بھی نہیں ہے مگر ایک ہستی کے طور پر پھر بھی وجود رکھتی ہے

جبکہ بلوچ سیاست دان وجود رکھ کر نیستی سے بدتر ہیں یہ لوگ بارڈر سمیت روزگار اور دیگر گھمبیر ایشوز کو لیکر عوام کو بیوقوف بنانے کے چکّر میں ہیں تاکہ عوام کو سبز باغ دکھا کر ہمدردیاں حاصل کرتے ہوئے ووٹ حاصل کریں اور بعد میں خاندان اور برادری سمیت ریاست کی خدمت کر سکیں۔ بلوچ قائدین قوم کے ساتھ ریاست کی روش کو ایجنڈے کے طور پر لے کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر قائدین کی سنگت میں طویل دور گزارنے کے بعد عوام کو خود بھی اندازہ لگانا اور احساس ہونا چاہیئے کہ گزشتہ سالہا سال کے دوران یہ لوگ اسمبلیوں اور سینٹ میں رہے ہیں

بلکہ اس وقت بھی بڑی تعداد میں بلوچ قوم اور بلوچستان کے نمائندوں کے طور پر سینٹ کے اندر موجود ہیں لیکن ان سیاست دانوں نے بلوچ قوم کے لیے کیا کیا ہے؟ بلوچ قوم اور بلوچستان کو درپیش کون سے مسائل حل کروائے ہیں یا مسائل پر راست آواز بلند کی ہے کہ مستقبل میں یہ لوگ جوئے شیر لا کر بلوچ قوم کو صحت مند اور تندرست بنا دیں گے ۔گزشتہ بیس سالوں کے دوران کتنے بلوچ فرزند ماورائے قانون لاپتہ ہیں

لیکن ان بلوچ سیاست دانوں میں اتنی ہمت اور جرات نہیں ہے کہ اس سلسلے کو بند کروا دیں، گمشدہ بلوچوں پر اگر الزامات ہیں کہ دہشت گردی میں ملوث ہیں تو اس کے لیے ملکی قوانین کے تحت سزائیں

موجود ہیں ریاست کو چاہیئے کہ وہ ان کو سامنے لائے اور الزامات کے مطابق مجرم ثابت کر کے قانون کے مطابق سزائیں دے یاپھانسیوں پر لٹکائے مگر ان کو مسلسل گمشدہ رکھنا اور اذیت گاہوں میں ٹارچر کرنا اس قسم کا قانون تو دنیا کے کسی بھی کونے میں اور کہیں بھی نہیں ہے ۔ان گمشدگان کو اگر مار دیا گیا ہے تو بھی اعتراف کر نا چاہیئے کہ ہم نے خود ہی ان سے باز پرس کر دیا تھا اور یہ لوگ چونکہ مجرم تھے

سو سزا کے طور پر ہم نے ان سب کو مار دیا ہے اور وہ زندہ نہیں ہیں مگر ان لوگوں کے پسماندگان کو مسلسل ذہنی اذیت اور عذاب میں مبتلا رکھنا اس چیز کی اجازت انسانی اور عدالتی تاریخ میں کہیں

موجود نہیں ہے۔ یہاں پر یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ ان نام و نہاد قوم پرست سیاست دانوں سمیت پنجاب اور سندھ کے ان کے حواریوں اور مرشدوں نے (جن کے پیچھے یہ دم چلہ کے طور پر بھاگتے پھرتے ہیں) بھی اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لیا ہے کہ بلوچ ہوں یا پشتون اگر مجرم ہیں تو ان کو عدالتوں میں پیش کریں اور سزائیں دیں مگر یہ کوئی اخلاقی اور منطقی حل ہرگز نہیں کہ وہ مسلسل غائب رہیں۔اس کے ساتھ یہ بھی

کہ وہ بلوچ طلبا جو پنجاب اور سندھ میں پڑھنے اور علم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں ان کو غائب کیا جاتا ہے یا ’’جماعت‘‘ کے غنڈوں کے ذریعے اْن کو مار مار کر زندہ لاش بنا دیا جاتا ہے۔

اس عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ریاست چاہتی ہے کہ بلوچ کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیئے جائیں تاکہ وہ پنجاب اور سندھ کے نسبتاً بہتر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہ کر سکیں۔ بلوچستان میں بھی طلبا کے لیے تمام ہاسٹلز اگرچہ موجود اور سلامت ہیں، ان کو سرکاری خرچ پر رنگ و روغن بھی کیا جاتا ہے مگر مجال ہے کہ طلبا ہاسٹلز میں رہ سکیں۔ یہ تمام سہولیات بلوچ طلبا کے لیے بند کر دیئے گئے ہیں جبکہ بلوچ طلبا بلوچستان سمیت سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبر میں کرایہ کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری جمہوریت کے چمپیئن ہیں

وہ خود ہوں یا ان کے دم چلّہ بلوچ قائدین ہوں اگر ان مسائل پر توجہ نہیں دیتے صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے تو کوئی اس قسم کے بلوچ نمائندوں کو کس دنیا کے لغت کی تعریف میں جمہوریت پسند اور قوم پرست سمجھے یا کہے. . .؟