نومبر کا مہینہ مکران ڈویژن کے لئے فیک انکاؤنٹرز کا بدترین مہینہ ثابت ہوا۔
جعلی مقابلے کی جعلی کہانیاں گڑھی گئیں۔
جھوٹ پرمبنی قصے سنائے گئے۔ کسی کو دھماکے کے نام پر قتل کردیا گیا تو کسی کو فائرنگ کے تبادلے کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہاں تک کہ عدالت سے دس روزہ جسمانی ریمانڈ والے نوجوان کو بھی نہیں بخشا گیا۔ گناہ گاروں کو مارنا سمجھ میں آتا ہے۔ بے گناہوں اور بے قصوروں سے اسکور پورا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
23 نومبر 2023 کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے بالاچ مولابخش کی میت کے ساتھ لواحقین نے شہید فدا چوک پر دھرنا دیا۔ بالاچ کی میت کو سیشن کورٹ تربت کے مین گیٹ کے سامنے رکھ کر بھی احتجاج کیا گیا۔ دھرنے میں خواتین سمیت عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔
اور جعلی مقابلے کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ لواحقین نے بالاچ کے قتل میں ملوث سرکاری اہلکاروں کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔ لواحقین کے مطابق جعلی مقابلے سے دو دن قبل بالاچ کو سی ٹی ڈی نے تربت کے مقامی عدالت میں پیش کرکے ان کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ لیا تھا۔ واضح رہے کہ 23 نومبر 2023 کی صبح بالاچ کو تربت میں چار افراد کے ساتھ جعلی مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
قتل ہونے والے بالاچ کا تعلق تربت کے علاقے آبسر سے تھا۔ انہیں 29 اکتوبر 2023 کی رات ایک بجے کے قریب تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیاگیا تھا۔ قتل ہونے والے نوجوان کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے اور نوجوان اسٹار پلس مارکیٹ تربت میں کشیدہ کاری کا کام کرکے اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا تھا۔ ایک دن بعد قتل ہونے والے تین دیگر افراد کی بھی شناخت ہوگئی۔
قتل ہونے والے سیف اللہ ولد امید علی کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے پیدارک سے تھا۔ جبکہ سیف بلوچ اور شکور بلوچ کے ناموں سے دو مزید افراد کی شناخت ہوگئی۔ سیف بلوچ کو یکم اگست کو تربت سے اور شکور بلوچ کو 25 جون کو تمپ سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔
بلوچستان بار کونسل نے تربت میں فیک انکاؤنٹر کے خلاف عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کی کال پر تربت میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
بالاچ کے جعلی مقابلے سے چند روز قبل کیچ کے علاقے بالگتر میں ایک دھماکے میں تین افراد کے مارے جانے کی خبر سامنے آئی۔ تاہم بعدازاں پتہ چلا کہ یہ دھماکہ بھی جعلی تھا۔ تینوں افراد پہلے سے حراست میں تھے۔ دھماکے میں مارے جانے والی کی شناخت عادل ولد عصا، شاہ جہان ولد عصا اور نبی داد ولد لیواری کے ناموں سے ہوئی۔ اس طرح کے ماورائے عدالت گرفتاریوں اور قتل تشویشناک عمل ہے۔
ویسے تو پورے بلوچستان میں جعلی مقابلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاہم مکران ڈویڑن میں ان جعلی مقابلوں کی بھرمار ہے۔
بلوچستان نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین غلام محمد بلوچ، شیرمحمد بلوچ اور لالہ منیر بلوچ کو اپریل 2009 میں لاپتہ کردیا گیا تھا۔ اور نو اپریل 2009 کو تربت کے علاقے مرگاپ سے ان کی تشدد شدہ لاشیں ملیں۔ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے علاقے آبسر میں 13 اگست 2020 کو حیات بلوچ نامی ایک طالب علم کو ان کی ماں اور باپ کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا
جوکراچی یونیورسٹی کے طالب علم اور تربت کے علاقے کولوائی بازار کا رہائشی تھا۔اسی طرح جولائی 2022 کے دوسرے ہفتے میں نو لاپتہ افراد کو ضلع زیارت میں ایک جعلی مقابلے میں ماردیا گیا۔ بعد ازاں ان لاشوں کی شناخت شمس ساتکزئی، شہزاد دہوار، مختیار بلوچ اور سالم کریم بخش اور دیگر کے ناموں سے ہوئی تھی اور انکی جبری گمشدگیوں پر لواحقین سراپا احتجاج بھی تھے۔اس جعلی مقابلے کے خلاف لواحقین اور دیگر لاپتہ افراد کے خاندانوں نے کوئٹہ میں ریڈ زون میں 52 دنوں کا دھرنا دیا تھا۔
لواحقین کی جانب سے ہونے والے احتجاج پر پولیس نے دھاوا بول کر شرکا ء پر شدید لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
متعدد خواتین اور بچیوں کی حالت غیر ہوئی جبکہ کئی افرادبے ہوش ہوئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ جس طرح زیارت میں پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کو قتل کیا گیا تھا انہیں ڈر ہے ان کے جتنے بھی پیارے اس وقت سرکاری تحویل میں ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔مظاہرین نے حکومت بلوچستان کو 3 مطالبات پیش کئے ہیں جن میں زیارت واقعے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل، تمام لا پتہ افراد کی باحفاظت رہائی اور لاپتہ افرادکے لواحقین کو اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ دوبارہ کسی بھی زیر حراست شخص کو جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ دھرنے نے بلوچستان سمیت اسلام آباد کے ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔
اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک خصوصی کمیٹی بنائی۔ کمیٹی کے ارکان نے ریڈ زون میں جاری دھرنے کے کیمپ کا دورہ کیا۔ وفاقی کمیٹی میں اس وقت کے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور دیگر شامل تھے۔ سرکاری کمیٹی نے دھرنے میں بیٹھے مظاہرین سے مذاکرات کئے۔
تاہم لواحقین اور مظاہرین کا سب سے اہم مطالبہ تھا کہ جعلی مقابلوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
اگر کسی پر کوئی بھی الزام ہے تو انہیں پاکستانی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ سزا دینا عدالتوں کا کام ہوتا ہے۔
جس پر وفاقی وزیر قانون بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے یقین دہانی کرائی کہ آئندہ کسی گرفتار شخص کو جعلی مقابلے میں نہیں مارا جائیگا بلکہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائیگا۔ بلآخر وزیراعظم کی لاپتہ افراد کیلئے قائم وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کی یقین دہانی پر مظاہرین نے 52 روز سے جاری دھرنا ختم کردیا۔
وزراء کی یقین دہانی کے باوجود چند روز بعد مستونگ اور نوشکی میں دو الگ الگ جعلی پولیس مقابلے رونما ہوئے۔ ان جعلی مقابلوں میں مارے جانے والوں کی شناخت سلال ولد باقی بادینی جنہیں نوشکی سے 6 اکتوبر کولاپتہ کیا گیا تھا جبکہ فرید ولد عبدالرازق بادینی کو 28 ستمبر 2022 کو کوئٹہ اور تابش وسیم کو خضدار سے 9 جون 2022 کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
جبکہ عبدالرحیم ولد عبدالصمد کو 7 سال پہلے کوئٹہ سے جبری طور پرلاپتہ کیا گیا تھا جبکہ دوسرے کی شناخت عبیداللہ ساتکزئی ولد سلطان محمد کے نام سے ہوئی جنہیں چار سال پہلے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس ملک میں عجیب قانون ہے۔
وفاقی وزیرقانون اور وزیر داخلہ کی بھی نہیں سنی جاتی۔ عملاً کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں سیکیورٹی اداروں کا سربراہ وزیرداخلہ ہوتا ہے اور ملک کے آئین و قانون، وفاقی وزیر قانون کے اردگرد گھومتا ہے۔
مگر یہ سلسلہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
بلوچستان کو ’’مارو اور پھینکو‘‘ جیسی پالیسیوں کی وجہ سے مزید شورش زدہ کردیا گیاہے۔ عام سیاسی و سماجی کارکن اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ باغیانہ سرگرمیوں سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ اس کی ذمہ دار حکومتی پالیسیاں ہیں۔
یہ حکومتی پالیسیوں کے تلخ نتائج ہیں۔بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لاپتہ افرادکو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے سے سنگین خدشات جنم لے رہے ہیں۔ حکومت کو اس طرح کی پالیسیوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔