’’واجہ وتی کدء َ بزاں‘‘ ایک مشہور بلوچی محاورہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے بلوچ اپنی حیثیت پہچان لیں۔ اس محاورے کے ویسے تو ہزاروں مطلب نکلتے ہیں۔
مگر یہ محاورہ آج ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کی سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ 25 نومبر 2023 کو سیشن جج تربت نے بالاچ مولا بخش قتل کیس میں پولیس کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دیا تھا۔ تاہم متعلقہ حکام نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکارکردیا تھا۔ اس انکار سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ توہین عدالت جیسے مرتکب عمل سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ وہ زیادہ طاقتور ہیں۔
ایف آئی آر درج نہ کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس عمل سے بلوچ قوم کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ بلوچوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ بلوچ اپنی حیثیت پہچان لیں۔ ان کے خون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلوچ کا خون سستا ہے۔ وہ اس ملک کے برابرکے شہری نہیں ہیں۔ اگر یہ جعلی پولیس مقابلہ پنجاب میں ہوتا تو قیامت برپا ہوتا۔ یہ خبر قومی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہوتی۔
کابینہ کا اجلاس طلب کیا جاتا۔ سینیٹ میں قرارداد منظور ہوتے کیونکہ پنجاب کے لوگوں کا خون مہنگا ہوتا ہے۔ وہ اس ملک کے اصلی شہری ہیں۔ بلوچ دوسرے درجے کے شہری ہیں جو سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق پنجاب کے لوگوں کو حاصل ہیں وہ بلوچستان کے لوگوں کو حاصل نہیں ہیں۔ اس ملک میں متوازی نظام قائم ہے۔ پنجاب کے لئے الگ اور بلوچستان کے لئے الگ نظام چل رہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔
واضح رہے 21 نومبر کو بالاچ مولابخش کو سی ٹی ڈی نے تربت کے مقامی عدالت میں پیش کرکے ان کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ لیا تھا۔ دس روز ریمانڈ کے بعد انہیں عدالت میں پیش کرنے کے بجائے انہیں 23 نومبر کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں ماردیا گیا۔
ان کے ساتھ دیگر تین افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ بالاچ کا تعلق تربت کے علاقے آبسر سے تھا۔ انہیں 29 اکتوبر 2023 کی رات ایک بجے کے قریب تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیاتھا۔ قتل ہونے والے نوجوان کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے اور وہ اسٹار پلس مارکیٹ تربت میں کشیدہ کاری کا کام کرکے اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا تھا۔ ایک دن بعد قتل ہونے والے تین دیگر افراد کی بھی شناخت ہوگئی۔
قتل ہونے والے سیف اللہ ولد امید علی کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے پیدراک سے تھا۔ جبکہ سیف بلوچ اور شکور بلوچ کے ناموں سے دو مزید افراد کی شناخت ہوگئی۔ سیف بلوچ کو یکم اگست کو تربت سے اور شکور بلوچ کو 25 جون کو تمپ سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔
جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے بالاچ مولابخش کی میت کے ساتھ لواحقین نے شہید فدا چوک پر دھرنا دیا۔ دھرنے کے دوران لواحقین نے متعلقہ پولیس تھانے میں سی ڈی ٹی کے خلاف مقدمے کی دراخواست دی لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا جس پر لواحقین نے دھرنا جاری رکھا۔
دیکھتے دیکھتے شہید فدا چوک میں ہزاروں لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ بالاچ مولا بخش کی میت کے ہمراہ ہزاروں مرد و خواتین اور بچوں نے شہید فدا چوک سے سیشن کورٹ تک ریلی نکالی اور کورٹ کے سامنے دھرنا دیا۔
مظاہرین نے کورٹ سے سی ٹی ڈی کے خلاف بالاچ مولابخش قتل پر ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کررکھا تھا۔ اس موقع پر بلوچستان بار کونسل نے تربت میں فیک انکاؤنٹر کے خلاف عدالتی کاروائی کا بھی بائیکاٹ کردیا تھا۔
مظاہرین کے مطالبہ پر سیشن عدالت تربت نے بالاچ مولا بخش قتل کیس میں پولیس کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دے دیا۔ اس کے باوجود متعلقہ حکام نے ایف آئی آر درج نہیں کیا۔
ایف آئی آر درج نہ کرنے پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کی کال پر ضلع کیچ میں ہڑتال کی گئی۔
شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر رکاوٹیں ڈال کر بعض مقامات پر ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کردیا گیا جس کی وجہ سے ضلع کیچ کا پہیہ جام ہوگیا۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں نے شہر کے اندر سینما چوک پر ٹائر جلا کر اسے بند کردیا جب کہ جوسک میں مرکزی شاہراہ کو بند کردیا گیا۔
29 نومبر بالاچ مولابخش کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ نماز جنازے میں خواتین و بچوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
جنازے کو جلوس کی شکل میں زیارت شریف کی قبرستان پہنچایا گیا۔ جہاں ان کی تدفین کردی گئی۔ تدفین کے بعد مظاہرین واپس شہید فدا چوک پہنچ گئے اور دھرنا جاری رکھا۔ اور کہا کہ ان کے مطالبات تسلیم نہ ہونے تک دھرنا جاری رہے گا۔
ضلع کیچ کے حالات روز بروز خراب ہونے کے بعد بلوچستان کا مرکزی شہر کوئٹہ ہل گیا جس کے باعث بلوچستان حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹریبونل آف انکوائری تشکیل دے دی جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ ٹریبونل آف انکوائری سیکرٹری فشریز عمران گچکی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی جس میں ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ، ڈی سی کیچ، ایس ایس پی گوادر شامل ہیں۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پندرہ دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
ٹریبونل قائم کرنا اچھا عمل ہے لیکن اس سے قبل بالاچ کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنا ضروری ہے۔ تاکہ مظاہرین اور حکومت کے درمیان ایک سازگار ماحول پیدا ہوسکے ورنہ یہ ٹریبونل کارآمد نہیں ہوگا۔
کیونکہ ماضی میں بھی ایسی بے شمار ٹریبونل اور کمیٹیاں بنائی گئی تھیں جو بغیر نتائج کے اپنی موت آپ مرگئیں تھیں۔