|

وقتِ اشاعت :   March 19 – 2016

وفاقی حکومت نے بلوچستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے سلسلے میں ایک نئے اور اہم ترین شاہراہ کی تعمیر کاکام شروع کردیا ہے وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر جنرل قادر بلوچ نے اس کا افتتاح کیا ۔ یہ شاہراہ زاہدان ‘ ایرانی بلوچستان کے دارلحکومت کو کراچی سے ملائے گی یہ آر سی ڈی ہائی وے کے ایک متوازی شاہراہ ہوگی جو آر سی ڈی ہائی سے تقریباً 400کول میٹر کا سفر کم ہوگیا ۔ یہ شاہراہ یک مچھ سے خاران ‘ بسیمہ ‘ اور ناچ اور کراچی کے ساتھ مل جائے گی پہلے مرحلے میں یک مچھ سے خاران تک سڑک تعمیر کی جائے گی اس کے بعد دوسرے مرحلے میں بسیمہ اور ناچ تک سڑک تعمیر کی جائے گی ۔ یہ سڑک نیشنل ہائی وے اتھارٹی ترعمیر کررہی ہے اور وفاقی حکومت نے اس اہم ترین منصوبہ پر فنڈ فراہم کیے ہیں اس پر تیز رفتاری سے کام ہوگا اس کی تعمیر ہونے کے بعد زاہدان جانے والے مسافر کراچی سے اس روٹ سے سفر کریں گے اور سفر کا دورانہ بھی کم ہوگا پیٹرول یا توانائی بچت ہوگی اور سفر 300سے 400کلو میٹر کم ہوگا۔ ایسی صورت میں وسطی بلوچستان خصوصاً جھالاوان اور لسبیلہ کے لوگ اس نئے شاہراہ پر سفر کرسکیں گے ایران جانے والے زائرین کے لئے یہ زیادہ مناسب راستہ ہوگیا اس سے کوئٹہ اور سراوان سے ہٹ کر یہ شاہراہ گزرے گی اکثر دہشت گرد حملے کوئٹہ اور مستونگ ضلع کے حدود میں ہوئے جس میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں ۔ اسی علاقے میں مذہبی انتہا پسندی بھی قدرے زیدہ ہے اکثر گرفتار یا ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کا تعلق ضلع مستونگ اور اس کے قرب و جوار سے تھا تاہم یہ نئی شاہراہ ایران جانے والے بلوچ عوام اور خصوصاً پاکستان بھر سے زائرین اس شاہراہ کو استعمال کرسکیں گے۔ یہ موجودہ حکومت کا ایک اہم منصوبہ ہے جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کے عمل کو تیز تر کرنا اور دور دراز علاقوں کو بڑے بڑے شہروں اور قصبوں سے ملانا شامل ہے اس نئی صورت حال میں خاران اور اس کے قرب و جوار معاشی سرگرمیوں کا م زکر بن جائیں گے یہ شاہراہ نوکنڈی کے معدنی دولت کو کراچی جیسے صنعتی مرکز میں جلد سے جلد پہنچائے گی کیونکہ یہ شاہراہ کیونکہ یہ شاہراہ معدنی دولت اور ذخائر کے وسط سے گزرتی ہے اس منصوبے کے خالق وفاقی وزیر جنرل (ر) قادر بلوچ ہیں جنہوں نے ذاتی دلچسپی لے کر اس منصوبہ پر عمل درامد کرایا ہے انہوں نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے منصوبہ کو نہ صرف منظور کروایا بلکہ اس پر عمل درآمد شروع کروایا ہے اس منصوبے میں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی ذاتی دلچسپی بھی شامل ہے کیونکہ اس کا بڑا حصہ جھالاوان سے گزرتا ہے اور مقامی لوگوں کو سفر کی سہولیات فراہم کرتا ہے یہ فخر کی بات ہے کہ اتنا اہم منصوبہ ان کی دور حکومت میں شروع ہوا اور جس کا افتتاح انہوں نے جنرل قادربلوچ سے مل کر مشترکہ طورپر کیا ۔ ان دونوں رہنماؤں سے عوام یہ جائز توقع وابستہ کرتے ہیں کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کیلئے وسائل کی کمی کا مسئلہ نہیں آنا چائیے ۔ بلوچستان سے متعلق یہ بات یقنی ہے کہ منصوبہ شرو ع ضرور ہوتا ہے مگر یہ مکمل تیس سال بعد ہوتا ہے بلوچستان کے ایسے درجنوں بڑے بڑے یا میگا پروجیکٹ ہیں و تیس سال گزرنے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوئے ۔ ان میں گوادر پورٹ ‘ کیچھی کینال ‘ آر سی ڈی ہائی وے کے منصوبے بھی شامل ہیں ۔ ان میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ کوئی مقمای رہنما شور مچاتا ہوا نظر نہیں آتا جو وفاق اور وفاقی اہلکاروں پر دبا ؤ ڈالے کہ وہ بلوچستان کو ترقیاتی فنڈ بروقت دیں تاکہ منصوبے تاخیر کا شکار نہ ہوں اور ان کی لاگت میں اضافہ نہ ہو ۔ کیچھی کینال کا منصوبہ31ارب روپے کا تھا وقت پر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اب اس کی لاگت 102ارب تک پہنچ گئی ہے ۔ اسی طرح بولان میڈیکل کالج کا منصوبہ ساڑھے سات کروڑ روپے کاتھا اور وہ 32ارب روپے ہیں 2002ء میں مکمل ہوا لہذا خاران کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے منصوبے پر تاخیر نہ کریں ۔ خاران پورے ملک کا سب سے زیادہ غریب ترین خطہ غربت اور ناداری میں اس کا ہم پلہ کوئی علاقہ یا ضلع نہیں ہے ۔