بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ ترین صوبہ ہے جہاں پر ریاست نے 67سال گزرنے کے بعد بھی بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرکے نہیں دیا بلکہ ریاست نے بنیادی سڑکوں کی تعمیر میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا اس وجہ سے پورے صوبے میں سڑکوں کا جال نظر نہیں آتا ۔ آر سی ڈی ہائی وے گزشتہ ساٹھ سال سے زیر تعمیر ہے جو آج تک مکمل ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ البتہ کراچی سے کوئٹہ تک سڑک کے معیار کو حالیہ سالوں میں بہتر بنایا گیا ہے جس میں غیر ملکی امداد خصوصاً حکومت جاپان کی بھی امداد شامل ہے ۔ سڑکوں کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سفر کی سہولیات حاصل نہیں ہیں اس کے باوجود بس مالکان کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کررہے ہیں اور نئی نئی بسیں خرید رہے ہیں مگر سڑکوں کی غیر موجودگی میں یہ گاڑیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کراچی میں بعض بسیں 1960کی دہائی سے آج تک چل رہی ہیں مگر بلوچستان میں سڑک کا وجود ہی نہیں ہے اگر ہے تو صرف تھوڑے سے علاقے میں یا بعض شہروں کے درمیان ۔ اس وجہ سے نئی نئی بسیں بھی چند سالوں میں ناکارہ ہوجاتی ہیں شاید اسی وجہ سے ٹرانسپورٹرز حضرات بلوچستان میں نسبتاً زیادہ کرایہ وصول کررہے ہیں اگر اچھی سڑکیں ہوں اور بسوں کی زندگی بھی طویل ہو اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتو بس کے کرایوں میں زیادہ کمی آسکتی ہے بلوچستان پورے ملک کا 44فیصد ہے مگر صوبے میں سڑکوں کی تعمیر کے لئے فنڈز چار فیصد سے بھی کم ہے اس لیے سڑک کی تعمیر میں دہائیاں لگ جاتی ہیں سال نہیں ‘ گوادر سے خضدار تک کی سڑک ابھی مکمل نہیں ہوئی بلکہ اگلے دس سالوں تک اس کے مکمل ہونے کے آثار نظر نہیں آتے کیونکہ بلوچستان کو فنڈز نہیں دئیے جاتے اس کے ساتھ امتیازی سلوک جاری رہتا ہے ۔ ان حکمرانوں کو کوئی روکنے والا نہیں کہ وہ بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کریں گزشتہ حکومت نے گوادر ‘ رتو ڈیرو سیکشن پر کام کیا وہ بھی صوبہ سندھ میں بلوچستان میں نہیں ‘ اگر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ گودار رتو ڈیرو سیکشن پر کام ہورہا ہے تو وہ صوبہ سندھ کے علاقے میں ہے کیونکہ وفاق میں پی پی کی حکومت تھی اور وفاق پر سندھ کا چھاپ زیادہ تھا ۔ حالانکہ افسر شاہی کا تعلق یا مقتدرہ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بلوچستان کو نظر انداز اس وجہ سے کیاگیا کہ وہ پاکستان کا سب سے زیادہ لا وارث صوبہ ہے یہاں پر صوبے کے عوامی نمائندوں سے زیادہ سرکاری ملازمین کی بات سنی جاتی ہے اور تسلیم بھی کی جاتی ہے عوامی نمائندوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلوچستان میں سفری سہولیات میں اضافہ اس وقت ہوسکتا ہے جب یہاں پر معیاری سڑکیں تعمیر کی جائیں وفاق زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر کرے تاکہ ترقی کی پائیدار بنیاد ڈالی جائے ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ کوئٹہ میں پہلا بس ٹرمینل تعمیر ہورہا ہے ہمیں امید ہے کہ تعمیر کے معیار کو بہتر بنایاجائے گا ٹھگ اور چور افسران پر نظر رکھی جائے کہ وہ کرپشن کم سے کم کریں کچھی کینال والا حشر نہ ہو کہ جہاں پر ستر ارب روپے ہڑپ ہوگئے، یہاں تیس کروڑ میں کسی قسم کی کرپشن نہیں ہونی چائیے اگر ہزار گنجی ٹرمینل کی تعمیر میں کسی قسم کی بے ضابطگی ہوئی تو کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کو اس کا ذاتی طورپر ذمہ ٹھہرایا جائے، ان سے باز پرس کی جائے اور انہی کو سزا دی جائے۔ اس ٹرمینل کا مقصد لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے ۔ ہم نے بس ٹرمینل کی شہر سے باہر منتقلی کی مخالفت کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ سفر کی تمام تر سہولیات شہروں کے اندر فراہم کی جائیں صرف ہزار گنجی بس ٹرمینل نہیں بلکہ شہر کے اندر بھی ایسے ٹرمینل تعمیر کیے جائیں ہوسکے تو نجی ادارے اپنے اپنے ٹرمینل بنائیں بلکہ گروپ کی صورت میں بنائیں تاکہ شہر کے وسط میں عوام الناس کو گھر کے دروازے پر یہ تمام سہولیات مل جائیں ۔ اس کے ساتھ ہی یہ حکومت اور ٹرانسپورٹرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ شٹل سروس کی سہولیات بھی فراہم کریں ۔ یہ بھی ذمہ داری کیو ڈی اے کی ہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرے کہ لوگوں کو آسان ترین کرایہ پر شٹل سروس حاصل ہو ۔ بہر حال بس ٹرمینل کی تعمیر کا فیصلہ خوش آئند ہے اور مزید ایسے ٹرمینل بلوچستان بھر کے بڑے چھوٹے شہروں میں بنائے جائیں اور لوگوں کے سفر کو زیادہ آرام دہ بنایا جائے ۔
بلوچستان میں سفری سہولیات
وقتِ اشاعت : March 20 – 2016