|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2023

کراچی کے علاقے عائشہ منزل کے قریب عرشی شاپنگ مال میں آگ لگ گئی۔ گراؤنڈ فلور اور میزنائن فلور پر دکانیں ہیں جبکہ اوپر چار منزلہ رہائشی عمارت ہے۔ اس کے گراؤنڈ فلور پر دکانوں میں آگ لگ گئی جہاں پر میٹرس فروخت کیے جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، تمام دکانیں اور اوپر کے فلیٹ سب جل کر بھسم ہو گئے۔فائر بریگیڈ کا عملہ آیا اور اس نے آگ بجھانے کی کوشش بھی کی لیکن مناسب سہولیات کی عدم موجودگی میں وہ آگ پر بہت تاخیر سے قابو پا سکے اور اس وقت تک سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔جب آگ پر قابو پایا گیا اس وقت تک لوگوں کی دکانیں فلیٹ ان کے اندر موجود سامان، بچیوں کی جہیز، جمع پونجی سب کچھ ختم ہو چکا تھا، ان کے خواب بھی ختم ہو چکے تھے۔اگلے دن آنکھوں میں آنسو لیے فیملیز اپنے فلیٹوں کو بے بسی سے دیکھ رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ اب کہاں جائیں۔ جو تنکا جوڑ جوڑ کر آشیانہ بنایا تھا وہ تو آگ نکل گئی اب جائیں تو کہاں جائیں۔ایک خاتون نے آنکھوں میں آنسو لیے کہا کہ کراچی وہ شہر ہے جس کے باسیوں کو یہ نہیں معلوم کہ آج گھر سے باہر جائیں گے تو کیا واپس آ سکیں گے اور اگر واپس آ بھی گئے تو کیا گھر محفوظ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی یتیم ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی والے بجلی کا بل بھی پورا دیتے ہیں گیس کا بل بھی پورا دیتے ہیں لیکن بجلی آتی ہے نہ گیس، سلنڈر کے ذریعے کھانا پکانا پڑتا ہے اور سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے ہی عمارت میں آگ لگی۔ اب اس کا ازالہ کون کرے گا۔
وزیراعلی سندھ نے انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور کہا ہے کہ ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ جبکہ رہائشیوں اور دکانداروں کے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایس بی سی اے کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ہوا جنہوں نے بلڈنگ کوڈز کا خیال نہیں رکھا۔ اگر بلڈنگ کوڈز کا خیال رکھا جاتا تو تین جانیں، 74 اپارٹمنٹس اور 130 دکانیں آگ لگنے سے تباہ نہ ہوتیں۔
اگر دیکھا جائے تو بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی تو نئی عمارتوں میں بھی کی جا رہی ہے اور کسی بھی عمارت میں فائر سیفٹی کا نظام موجود نہیں ہے۔ نئی عمارتوں میں بھی بلڈنگ کوڈز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے ایک سسٹم چلتا ہے جو اس سسٹم کا حصہ ہے وہی عمارتیں بنا سکتا ہے۔جب بھی کوئی نئی عمارت بنتی ہے تو ہر منزل کے پیسے مقرر ہیں جو سسٹم چلانے والوں کو دیے جاتے ہیں اور وہ رقم کروڑوں میں ہوتی ہے اگر وہ رقم نہ دی جائے تو عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سسٹم گزشتہ دور حکومت میں بھی غیر علانیہ چل رہا تھا اور نگراں حکومت آنے کے بعد بھی یہ سسٹم جوں کا تو ںبرقرار ہے۔
نگراں وزیر اعلیٰ سندھ نے انکوائری تحقیقات اور متاثرین کو ازالے کے راگ تو سنا دیے ہیں، لیکن متاثرین کو یقین نہیں ہے کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر پائے گی۔ اس سے قبل حکومت نے نسلہ ٹاور کے متاثرین کو بھی رقم دینے کی یقین دہانی کرائی تھی اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا لیکن اب تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ البتہ متاثرین کو ٹکڑوں میں کچھ رقم دی گئی جس کو بہر حال ازالہ تو نھیں کہا جا سکتا۔
ابھی کچھ روز قبل کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں آر جے مال میں آتشزدگی کا واقعہ ہوا تھا جس میں 11 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ پولیس نے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ایک کال سینٹر کے مالک سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا تھا جنہیں عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ حاصل کیا گیا۔
پولیس کا دعوی ہے کہ کال سینٹر غیر قانونی طور پر چلایا جا رہا تھا جبکہ کال سینٹر کے مالک کا کہنا ہے کہ ان کے ملازمین خود متاثرین میں شامل ہیں اور ذمہ داری تو بلڈرز پر عائد ہوتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کال سینٹر غیر قانونی طور پر بھی چلایا جا رہا تھا اس کے باوجود کال سینٹر پر بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی کیسے عائد کی جا سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پولیس نے کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے کال سینٹر کے پانچ ملازمین کو گرفتار کر لیا یا پھر دوسری صورت میں ان سے رقم بٹوری جائے گی پھر انہیں اس کیس سے بری الذمہ قرار دے دیا جائے گا۔
آر جے مال میں بھی تحقیقات کی گئیں اور ازالے کے لیے اب تک باتیں ہی ہو رہی ہیں اور وہ ازالہ کب ملے گا، مزیدکتنے ماہ و سال لگیں گے، ملے گا یا نہیں ملے گا ان سوالوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی کو چیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور اگر اب بھی ان کورڈز کی خلاف ورزی نئی عمارتوں کی تعمیر میں بھی کی جا رہی ہے تو اس کو کون چیک کرے گا؟ کب تک آگ لگنے سے عمارتوں کے رہائشی اور دکاندار اپنی جمع پونجی لٹتے ہوئے دیکھتے رہیں گے۔ کب تک یہ سسٹم اسی طرح چلتا رہے گا؟
حضرت عمر نے حکمرانی کرنے اور نظام سلطنت کو چلانے کا بے مثال انداز دیا، ایک حاکم کی کیا ذمہ داریاں ہونی چاہییں اور رعایا کی خبر گیری کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے اس کو بہتر طور پر آپ نے پیش کیا اور بتایا کہ جس کے دل میں خوف ِخدا،اور آخرت کا احساس ہوتا ہے تو پھر وہ تخت اور حکومت ملنے کے بعد اپنے عوام کی فکر سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔
ہمارے حکمران اسلامی طرز حکومت کی بات تو کرتے ہیں، حضرت عمر کے دور کے عدل و انصاف کی مثالیں دیتے ہیں لیکن اس زمانے میں جو عدل اور انصاف کا نظام قائم تھا اس پر عمل درآمد کب کریں گے؟