حب چوکی کے لیڈا آڈیٹوریم میں محکمہ ماحولیات کی جانب سے پبلک ہیئرنگ کیس کی شنوائی ہوگی۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے بنائی گئی ماحولیاتی ایکٹ 2012کے مطابق کوئی بھی کمپنی جس کا تعلق فضاء کو آلودہ کرنے سے متعلق ہو اسے سب سے پہلے محکمہ ماحولیات کے قواعد و ضوابط سے گزرنا ہی پڑے گا۔ آج کل ایسے ہی ایک اہم پروجیکٹ کی چرچا ہے جو حکومت پاکستان کی جانب سے چائنا کے صدر کے ساتھ دستخط ہونے والے 51منصوبوں میں سے ایک ہے۔ حبکو کول پاور پروجیکٹ کے مضمر اثرات اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے خلاف اٹھنے والی آواز نے ہر زی شعور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اسکے اثرات آنے والے وقتوں میں ماحول پر کتنا پڑ سکتے ہیں۔ اپریل 2015ء کو جب چائنا کے صدر شی چن پنگ نے پاکستان کا دورہ کیا تو اس دورے کے دوران 45.6ارب ڈالر کی لاگت سے 51منصوبوں کا اعلان کیا گیا ۔ ان منصوبوں میں سب سے زیادہ رقمتوانائی کے شعبے کے لئے 33.8ارب ڈالر رکھے گئے۔ ملک کے وسیع تر کوئلے کی ذخائر کو دیکھتے ہوئے انہیں توانائی کے شعبے میں خرچ کرنے کا مکمل منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔ توانائی کے اہم منصوبوں کے لئے حبکوپاور کمپنی اور چائنا پاور انٹرنیشنل ہولڈنگ لمیٹڈ (CPIH) کے درمیان ایک معاہدہ بھی اپریل 2015کو طے پایا گیا جس کے مطابق بلوچستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر حب چوکی سے 15 کلومیٹر دور 660میگاواٹ کے دو پلانٹلگائیں جائینگے۔ 2.4بلین ڈالر کی لا گت سے بننے والی اس منصوبے سے پیدا ہوانے والی 1320میگاواٹ بجلی نیپرا کو دی جائے گی جو مزید اسکی تقسیم کے فارمولے وضع کرے گی۔ حبکو پاور کمپنی پاکستان میں ان تمام توانائی کے کمپنیوں میں سے ایک کمپنی ہے جو بجلی پیدا کرکے توانائی کے بحران کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ ادارہ پہلے سے ہی حب کے ایریا میں گڈانی کی ساحل سے متصل بجلی کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ توانائی منصوبے کو شروع ہونے سے پہلے ہی عوامی مخالفت کا سامنا ہے اور عوامی سطح پر اسکے بے شمار نقصانات کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اول یہ کہ اس سے پیدا ہونے والی بجلی بلوچستان میں خرچ نہیں کی جائیگی۔ دوسری اہم بات یہ کہ اس سے پیدا ہونے والا دھواں نہ صرف یہاں کی آبادی کو متاثر کر ے گی بلکہ اس سے جان لیوا بیماریوں کے پیدا ہونے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں تیسری اور اہم بات یہ کہ یہاں کے عوام حبکو کمپنی کی سابقہ ادوار میں کی گئی وعدوں اور اس سے منحرف ہوجانے کی وجہ سے اب مزید دھوکہ کھانے کی گنجائش نہیں رکھتے۔ نہ صرف عوام بلکہ یہاں کے عوامی نمائندے اور سول سوسائٹی بھی اس پروجیکٹ کے حق میں نہیں اور قانونی راستے اپنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی بلوچستان محمد اسلم بھوتانی اس پراجیکٹ کو حب میں لگانے کے قطعاً حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں اس منصوبے کو روکنے کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ ہم ترقی کے ہرگز خلاف نہیں۔ لیکن ایسی ترقی جو ہماری اور ہمارے آنے والی نسلوں کے لئے تباہی لائے وہ ہمیں ہرگز قابل قبول نہیں۔ اس منصوبے میں استعمال ہونے والا مضر صحت کوئلہ نہ صرف آلودگی پھیلاتا ہے بلکہ اس سے پیدا ہونے والادھواں بیماریوں کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔ ہاں اگر یہ پیدا ہونی والا بجلی بلوچستان کے علاقوں کو دی جاتی تو تب ایک بات بنتی لیکن یہی بجلی لاہور اور فیصل آباد کو دی جا رہی ہے اور ہمیں دھوئیں کے تحفے دیئے جا رہے ہیں تو ہمیں ہرگز قابل قبول نہیں۔‘‘۔ انکا کہنا ہے کہ ایک دن میں ہزاروں ٹن کوئلہ جلانے سے اسکا دھواں کہا ں جائے گا۔ اور اقوام متحدہ بھی اپنے پروگرام کے مطابق کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کے کو2020تک ختم کرانے کا سوچ رہی ہے۔ تو 2018 میں اسے یہاں بنا کر ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں سورج کی روشنی اور ہوا کی قلت نہیں اگر ان سے استفادہ کرنے کے لئے پراجیکٹ لگائے جائیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس منصوبے کا اعلان پچھلے سال کیا گیا تھا تو اس وقت اسکے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھایا تھا تو انکا کہنا تھا’’ جب اس منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت سے ہم نے اسکے خلاف آواز اٹھا رکھی ہے۔ پہلے تین میٹنگیں ادارے کے ساتھ کر چکے ہیں اور گزشتہ 6مہینے سے ایک درخواست عدالت میں دائر کی ہے جس کی سماعت چل رہی ہے اور ہم کسی بھی صورت اس منصوبے کے حق میں نہیں‘‘۔ لسبیلہ سول سوسائٹی بھی اس منصوبے کو یہاں کے عوام کے لئے ایک تباہ کن منصوبہ سمجھتی ہے۔ سوسائٹی کے ترجمان امان اللہ لاسی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ادارہ کسی بھی علاقے میں کوئی پراجیکٹ لگانے سے پہلے اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ علاقے کے مکینوں کو کونسے فوائد دیتی ہے۔ لیکن ایسا کوئی طریقہ کار یہاں موجود نہیں اگر ہم ماضی کو دیکھیں تو یہاں کمپنیوں کی بہتات رہی ہے اور اب بھی 200کے قریب کمپنیاں یہاں کام کر رہی ہیں ہیں لیکن یہاں کے مکینوں کو نہ روزگار ملتی ہے اور نہ ہی انہیں صحت اور تعلیم۔ اور دوسری بات یہ کہ حبکو کمپنی کی سابقہ ریکارڑ کو دیکھا جائے تو اس میں عوام کے لئے مسائل پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہاں کی بجلی کانظام درست کیا گیا اور نہ ہی یہاں کے مکینوں کو روزگار کے ذرائع مہیا کئے گئے۔ حب چوکی کی آبادی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے اور آبادی کا بڑھ جانا یہاں کے کاروباری ذرائع اور اسکا کراچی سے منسلک ہونا ہے۔ ایک وقت تھا کہ حب جھاڑی نما علاقہ اور کیکر کے درختوں کا مسکن ہوا کرتا تھا۔ آج آپکو آبادی ہی آبادی نظر آتی ہے۔ دھواں ہی دھواں نظر آتا ہے۔ رہائشی اسکیمات بنائی جا رہی ہیں۔ درختوں کا وجود بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس سال جنوری اور فروری کا مہینہ جون جولائی کی یاد تازہ کر گئی۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے حب ڈیم میں پانی کی قلت ہے۔ بجلی کا نہ ہونا، درختوں کی کٹائی، جنریٹرز، گاڑیوں، کمپنیوں کے دھوئیں سے فضائی آلودگی ۔۔۔تو کیا حب شہر ایک اور خطرناک منصوبے کی بوجھ اٹھانے کی سکت رکھتا ہے۔ یہی سوال میں نے کلائیمیٹ چینج ایکسپرٹ ڈاکٹر پرویز کے سامنے رکھا’’ کول پاور پلانٹ کے بہت ہی خطرناک نتائج کا سامنا عوام کو کرنا پڑتا ہے۔ اب کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع کو آہستہ آہستہ ختم کئے جارہاہے جبکہ پاکستان میں اسے اب آزمایا جا رہا ہے جو کہ حیرانگی کی بات ہے۔ کول پاور منصوبہ 25کلومیٹر ایریا کو براہ راست جبکہ 50کلومیٹر کوان ڈائریکٹلی متاثر کرتی ہے۔ پاکستان میں سولر، ہائیڈرل، ونڈ کے ذریعے بجلی پیداکرنے کے ذرائع بھی موجود ہیں جن سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے‘‘۔انکا کہنا ہے کہ اگر پھر بھی اس پروجیکٹ کو لانچ کیا جانا مقصود ہے تو اس ایریا میں لاکھوں کے حساب سے درخت لگانے ہوں گے، پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنا ہوگا۔ صحت کی سہولیات مہیا کرنے ہوں گے ۔ کوئلہ پاور پلانٹ سے پیدا ہونے والا سب سے خطرناک شے سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس اور نائٹروجن گیس ہے جو کہ فضا میں موجود رہتی ہیں اور بارشوں کے موسم میں ادوبارہ زمین پر آجاتی ہیں جو جھیلوں اور کھڑے پانی کو متاثر کرتا ہے جسکے پینے سے جان لیوا بیماریاں پھیپڑوں کا کینسر، سانس کی بیماریاں اور جلدی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ محکمہ ماحولیات بلوچستان نے اس مسئلے کے حل کے لئے 28مارچ 2016کو ایک عوامی عدالت لگانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں عوام اسکے حق اور اسکے خلاف اپنا مؤقف پیش کریں گے۔ حبکو کول پاور پلانٹ سے حب شہر اور اسکا گردو نواح کتنا متاثر ہو سکتا ہے اور محکمہ ماحولیات کے پاس اس آلودگی کی روک تھام کے لئے کیا ذرائع ہیں۔ ریجنل اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹیکنیکل ماحولیات محبوب علی کا کہنا تھا ’’ جب سے بلوچستان ماحولیاتی ایکٹ 2012بنا ہے توکوئی بھی کمپنی اس بات کا پابند ہے کہ وہ کوئی بھی پراجیکٹ اس ایریا میں لانچ ہی نہیں کر سکتا جب تک ادارہ اسے اجازت فراہم نہ کرے۔ ہمارے ادارے کی پالیسی ہے کہ کسی بھی علاقے میں صنعت لگانے کی اجازت دینے سے پہلے وہاں کے مکینوں سے پوچھا جائے ۔ ہم عوامی رائے سنیں گے۔ اگر عوام کی اکثریت نے اسکے خلاف اپنی رائے دی تو ہم اس ادارے کو NOCجاری نہیں کریں گے۔ ہمارے پاس اس وقت دو کیسز 28مارچ کو حبکو پاور پلانٹ جبکہ دوسری 29مارچ کو DGسیمینٹ کے حوالے سے اسکی پبلک ہیئرنگ ہوگی‘‘۔ حب میں اس وقت 200کے قریب کارخانے کام کر رہے ہیں ان سے اٹھنے والا دھواں فضا کے ساتھ ساتھ ان سے نکلنے والا کیمیکل بھی یہاں کی آبادی کو متاثر کر رہی ہے۔ حب میں سب سے زیادہ کونسی بیماریاں عام ہیں یہی سوال میں نے جام غلام قادر ہسپتال حب کے ڈاکٹر عرفان احمد سے پوچھا۔ ’’ شہر میں سب سے زیادہ بیماری ہیپاٹائٹس کی ہیجو گندے پانی کی وجہ سے لگ جاتی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جلد کی بیماریاں جو کہ فضائی آلودگی اور گندگی سے لگ جاتی ہیں اور امراض چشم بھی عام ہے‘‘۔ حبکو پاورکمپنی نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے فضا کو آلودہ ہونے سے روکا جا سکے گا اور روزانہ ہزار ٹن کوئلہ کے استعمال کے بعد اس سے نکلنے والے کوئلے کو ڈمپ بھی کیا جا سکے گا۔ حبکو پاور کمپنی کی باتیں اپنی جگہ ماہرین اور عوامی رائے کو مدنظر رکھا جائے تو یہ پراجیکٹ آنے والے وقتوں میں یہاں کے مکینوں کے لئے تباہی کا ایک بہت بڑا سبب بنے گا۔ نکلنے والے دھوئیں سے نہ صرف فضاء متاثر ہوگی بلکہ اس سے بارشیں بھی کم ہونگی۔ جبکہ حکومت کے پاس درخت لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں اور نہ ہی عوام کو صحت، تعلیم کی سہولیات اور روزگار دینے کے خاص منصوبے ہیں۔ اعتماد کا فقدان بھی عوام میں نظر آتا ہے۔ کمپنیوں کی بہتات اور لیڈا کی موجودگی کے باوجودنہ ہی حب شہر کے بجلی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے اور نہ ہی یہاں کی سڑکیں پختہ ہیں نہ ہی اچھی تعلیم اور صحت کے مراکز۔ حب چوکی میں بسنے والے افراد پورے بلوچستان اور سندھ کی نمائندگی کرتے ہیں جو ملک کے طول و عرض سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ یہاں کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، فضائی آلودگی، سہولیات کا فقدان مزید ایسے منصوبوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جو نقصان ہی نقصان ہو۔عوامی رائے لی جائے پھر اس پر غور و خوض بھی کیا جائے۔ یقیناً اس منصوبے کوتمام زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے اسکے اثرات بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا آج ہمارے کل کی ضمانت ہے دیکھنا ہے آج کے فیصلے کل پر کتنا بھاری ہوتے ہیں۔گو کہ بجلی کا یہ وسیع منصوبہ ہے لیکن اس منصوبے کے بارے میں مقامی لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ انسانی جانوں کی قیمت زیادہ اہم ہے یا مصنوعی سہولیات۔