پچھلے دنوں ایک تحقیق کے سلسلے میں کوئٹہ شہر کے سریاب اور قمبرانی کے علاقوںکے چند اسکولوں کے دورے کا موقع ملا۔ اکثر اسکولوں کی حالت اتنی خستہ تھی کہ انہیں ڈھونڈنے میں گھنٹوں لگ گئے۔
ان اسکولوں پر نہ ان کے نام کی تختی تھی نہ اسکول کے لیے ایک مخصوص عمارت اور نہ ہی ایک بڑا دروازہ۔ ایک آدھ اسکول کے تو ہم سامنے ہی کھڑے تھے اور پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ یہ اسکول ہے کیونکہ وہ اسکول گھروں کو کرائے پر لے کر چلائے جا رہے تھے جو کہ انتہائی خستہ اور بری حالت میں تھے۔
مختلف اساتذہ کرام بالخصوص ہیڈمسٹریسز سے گفتگو کا موقع ملا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں پیسوں کی شدید کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اسکول میں انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی اسکول تو ایسے بھی ملے جہاں ایک ہی جماعت میں سو بچے بیٹھ کر پڑھ رہے تھے،جبکہ ایک کلاس پیریڈ کی مدت30 سے35 منٹ ہوتی ہے۔35 منٹ میں 100 بچوں کو پڑھانا ،اْن سے فیڈ بیک لینا انتہائی مشکل نہیں بلکہ ناممکن کام ہے۔
ایک سکول ایسا تھا جہاں ٹھیکہ دار نے پچھلے سال کام شروع کیا اور پھر کام روک دیا، اب سریہ، بجری، سیمنٹ، اینٹیں اوردیرتعمیراتی سامان اسکول کے صحن میں پڑا ہواتھا جبکہ سکول کی حالت اتنی بری تھی کہ کمرے کم پڑ گئے اور باہر بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ اساتذہ نے گِلہ کیا کہ ٹھیکہ دار اب ان کا فون نہیں اٹھاتا اور حکام ِبالا کو درخواستیں لکھ لکھ کر ان کے قلم کی سیاہی بھی خشک ہو گئی ہے۔
اکثر اساتذہ اس بات کا بھی رونا رو رہے تھے کہ غیرنصابی سرگرمیاںنہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں شدید ذہنی تناؤ بھی ہے لیکن “یہاں نصابی سرگرمیوں کے لیے جگہ اور وقت کم پڑ جاتے ہیں تو غیرنصابی سرگرمیاں کہاں سے کرائیں۔” ان ایک درجن کے قریب اسکولوں میں کوئی کاؤنسلنگ ڈیسک بھی نہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر طالبات کسی بھی قسم کی ذہنی کوفت یا پریشانی کا شکار ہیں تو اسکول میں اْنہیں سننے اور سمجھانے والا کوئی نہیں۔
چند ایک پرنسپلز نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے اسکول میں پڑھنے والے بچیوں میں سے کئیوں کے والدین جیلوں میں ہیں، کئیوں کے والدین مزدوری کرتے ہیں، جبکہ باقیوں کے والدین فارغ گھومتے ہیں اور خود کو ملک کہتے ہیں۔
ان تمام اسکولوں میں نہ تو بجلی تھی نہ گیس اور نہ ہی انٹرنیٹ ما سوائے کلسٹر ہیڈ اسکولوں کے۔ ایک مخصوص علاقے کے اسکول جس اسکول کے ماتحت کام کرتے ہیں اْسے کلسٹرہیڈ اسکول کہتے ہیں۔
انفراسٹرکچر کے بعد ان اسکولوں میں سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کی کمی تھی۔ چھ سو،آٹھ سو حتیٰ کہ ہزار طلبہ و طالبات کے اسکولوں میں کہیں14تو کہیں16 اساتذہ موجود ہیں۔
جب اساتذہ خود پریشانیوں کا شکار رہیں گے تو وہ طلبہ و طالبات پر کتنا اور کیسے دھیان دیں گے اور ان کی پڑھائی لکھائی پر کتنا دھیان جائے گا۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایک پرنسپل نے تو یہ بھی کہا کہ جو لوکل اساتذہ ہیں وہ کام نہیں کرنا چاہتے، دیر سے آنا اور جلدی گھر جانا چاہتے ہیں،
جب ان کا دل کرے چھٹی کرتے ہیں لیکن تنخواہ پوری لیتے ہیں۔
جبکہ باہر کے اسا تذہ جو یہاں کے لوکل نہیں ہیں اسکول ان کے بھروسے چلتی ہے اکثر چیزیں یہی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اگر لوکل اساتذہ پر کسی بھی قسم کی سختی کی جائے تو پرنسپلز کو مختلف معتبران کے فون آتے ہیں۔ ایک نے تو ایک پرنسپل کو دھمکی بھی دی ہے کہ ان کے بندوں کو تنگ نہ کیا جائے ورنہ ان کا تبادلہ کرا دیا جائے گا۔
انفراسٹرکچر اور اسٹاف کی کمی کے بعد ان اسکولوں میں سب سے بڑا مسئلہ سنگل نیشنل کریکلم کا ہے۔اساتذہ کی اکثریت نے یہ گلہ کیا کہ اکثر اْن اسا تذہ کو ٹریننگ دی جاتی ہے جن کی کوئی نہ کوئی سیاسی پشت پناہی ہوتی ہے
یا ان کا کوئی سفارش کرنے والا ہوتا ہے جبکہ ایسے کئی اساتذہ ہیں جو25 یا 30 سال سے پڑھا رہے ہیں اْنہیں انگریزی نہیں آتی اور ان کے لیے ٹریننگ بہت ضروری ہے کیونکہ سنگل نیشنل کریکولم کے بعد نصاب کا کافی حصہ انگریزی میں ہو چکا ہے۔ان اساتذہ نے یہ بھی گلہ کیا کہ سنگل نیشنل کریکلم کو بناتے وقت بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔
بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں آدھے سے زیادہ ایسے اسکول ہیں جن میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں، اندرون بلوچستان میں تو حالات اس سے بھی زیادہ خستہ ہیں۔ اکثر اساتذہ نے سنگل نیشنل کریکلم کو بلوچستان کے ساتھ ظلم قرار دیا۔
اس کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ان علاقوں میں چوری کا ہے۔ کئی اساتذہ نے کہا کہ وہ اسکولوں کے دروازوں پر نام کی تختی تک نہیں لگاتے کیونکہ وہ چوری ہو جاتے ہیں، اسکولوں کی کْرسیاں ،میز یہاں تک کہ دروازے اور پنکھے بھی چوری ہو جاتے ہیں۔
چوکیدار رکھنے کی ان میں سکت نہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ حکامِ بالا کو درخواستیں لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں لیکن نہ انہیں کوئی آیہ دی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی چوکیدار اور اگر ایک آدھ اسکول میں کوئی آیہ یا چوکیدار ہے تواسے بھی اساتذہ اپنی تنخواہوں سے کچھ نہ کچھ رقم جوڑ کر دیتے ہیں تاکہ اسکول کا نظام کچھ نہ کچھ حد تک چلتا رہے۔
قمبرانی کا ایک اسکول جسے صرف ڈھونڈنے میں ہمیں دو گھنٹے لگے وہاں کے پرنسپل نے کہا کہ وہ سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے پہلے اپنے اسکول کا سارا فرنیچر بشمول اسکول کی گھنٹی بھی کسی نہ کسی کے گھر پہ رکھوا دیتی ہیں اور اسکول کْھلتے ہی وہ تمام سامان وقفے وقفے سے واپس اسکول لے آتے ہیں تا کہ چھٹیوں میں سامان چوری نہ ہو جائے۔
مختصراً یہ کہ ان کلیوں کے اکثر اسکولوں میں چند ایک مسئلے بہت واضح تھے جیسے کہ انفراسٹرکچر اور پیسوں کی شدید کمی، اسٹاف کا نہ ہونا، سنگل نیشنل کریکلم اور بے تحاشہ چوریاں۔ اساتذہ کے ملے جلے مشورورں میں سے چند ایک درج ذیل ہیں؛
ایک: یہ اسکول بجٹ کے لیئے کلسٹر ہیڈ کے محتاج نہیں رہنا چاہتے کیونکہ کلسٹر ہیڈ بجٹ کا بہت سارا حصہ اپنے اسکول پر لگاتا ہے
جبکہ اپنے سے نیچے کے اسکولوں کی خستہ حالت سے بالکل ناواقف ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ان کے اسکول کا بجٹ براہِ راست انہیں ملے تاکہ معیاری تعلیم کو ممکن بنایا جا سکے۔
دو: ان کو مخصوص انفراسٹرکچر دینے کے بعد اسٹاف بھی مہیا کیا جائے کیونکہ ایک جماعت میں30 سے35بچوں سے زیادہ کو پڑھانا تقریباً ناممکن ہے۔
تین: ان کا یہ کہنا تھا کہ سنگل نیشنل کریکلم کو بلوچستان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں بہت سارے اساتذہ اس کریکلم کو پڑھانے سے یکسرقاصر ہیں۔
چار:ان اسکولوں کو چوکیدار اور آیہ کی سخت ضرورت ہے جو کہ ایک جائز مطالبہ ہے۔
پانچ: ان اسکولوں میں ایک کاؤنسلنگ ڈیسک کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ
وہ بچے اور بچیاں جو کسی بھی طرح سے ذہنی تناؤ کا شکار ہیں ان کو سننے والا اور ان کو صحیح مشورہ دینے والا کوئی اسکول میں موجودہو۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان اسکولوں کو مزید نظر انداز نہ کیا جائے کیونکہ ان اسکولوں کو نظر انداز کرنے کا مطلب اپنی اگلی نسلوں کو نظر انداز کرنا ہے جو کہ ایک اچھی روایت نہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ان اساتذہ میں بھی کئی برائیاں، کوتاہیاں اور سْستیاں ہوں گی پر جب تک حکامِ بالا ان اسکولوں کو بنیادی سہولیات نہیں دیتے تب تک اساتذہ پر سختی کرنا جائز نہیں کیونکہ جن مشکلات اور کم وسائل میں یہ بچوں اور بچیوں کو پڑھا رہے ہیں اِن استادوں کو صد سلام!