بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان صرف ایک ہی رشتہ ہے۔ وہ ہے وحشیانہ تشدد کا ۔ نہتے اور پرامن بلوچ لاپتہ افراد کے شرکاء پراسلام آباد پولیس نے ڈنڈے برساکر دنیا میں غنڈہ گردی کےریکارڈ توڑ دیے۔ یہ پولیس گردی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گئی ہے۔ یہ سارے “گلو بٹ” ہیں۔
اس عمل سے 1948 کے بعد بلوچستان اور فیڈریشن کے درمیان پیدا ہونے والی “فالٹ لائن” میں مزید جھٹکے لگے۔ جو آنے والی کئی نسلوں تک جاری رہیگی۔ اب بات بلوچی چادر کی بے حرمتی پر آچکی ہے۔ یہ معمولی چادر نہیں ہے۔ یہ بلوچی ننگ و ناموس کی چادر ہے۔ جس کا ہر بلوچ کو حساب چاہیے۔ اس حساب کے حصول کے لئے بلوچ سرزمین جل اٹھا۔ کوہ سلیمان کے علاقے رکنی فورٹ منرو، سندھ کے مرکزی شہر کراچی کے علاقے کاٹھور سے ہوتا ہوا راسکوہ کے دامن میں آباد رخشان، کوہ چلتن کے شال، جھالاوان، ساراوان، مکران، کوہ شاشان، لسبیلہ سمیت دیگرعلاقوں کے غیور بلوچ قوم سڑکوں پر آگئی۔ جگہ جگہ مظاہرے پھوٹ پڑے۔ سڑکوں کو بلاک کرکے پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی جارہی ہے۔ کاروبار کا پہیہ جام ہوگیا ہے۔ بلوچستان بھرمیں نظام زندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکار سڑکوں سے بھاگنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی رٹ ختم ہوگئی ہے۔ عوامی ردعمل نے حکومتی ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیاہے۔
دوسری جانب یہ کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر افراد کی ضمانت منظور ہوگئی ہے۔ بھائی جان! یہ دہشتگرد نہیں تھے کہ انہیں ضمانت دی جائے۔ یہ نہتی خواتین اور بچیاں تھیں جو ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے طے کرکے انصاف مانگنے اسلام آباد آئی تھیں۔ جن کے پاؤں میں چپل تک نہیں تھی۔ وہ ننگے پاؤں فریاد لے کر آئی تھیں۔ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتی ہیں۔ کسی کا والد، کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا کئی سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہے۔ ان کا صرف یہ معصومانہ مطالبہ ہے کہ وہ یہ کہ اگر ان کے پیارے زندہ ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ بے شک اگر کسی نے جرم کیا ہے تو انہیں سزا دی جائے۔ وگرنہ انہیں بازیاب کیاجائے۔ ملکی آئین و قانون کے مطابق بلوچ بھی پنجابی کی طرح مساوی حقوق کے حقدار ہیں۔ ملکی آئین و قانون بلوچستان کے لوگوں نے نہیں بنائے تھے۔ بلکہ پنجاب کے لوگوں نے بنائے تھے۔ حالانکہ یہ آئین گن پوائنٹ پر بنائے گئے تھے۔ پھر بھی بلوچ کہہ رہے ہیں کہ اسی آئین و قانون کے تحت ان کے لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ انہیں ملکی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ مگر آپ اپنے آئین و قانون کی روگردانی کررہے ہیں۔ اور اوپر سے بے قصور اور پرامن لانگ مارچ کے شرکا کو مجرم بناکر قید کردیا۔ اور خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ان کی عدالتوں سے ضمانت ہوگئی ہے۔ ان کی ضمانت کیوں ہوتی ہے؟۔ انہیں باعزت بری کردینا چاہیئے۔ ضمانت کسی دہشتگر کی ہوتی ہے۔ یہ دہشتگرد نہیں تھے۔ معصوم بچیوں ،ماؤں اور بہنوں کو سڑکو ں پر اغوا کیاگیا۔ معصوم بچیاں اپنی ماؤں پر تشدد دیکھ کر چیخ و پکار کررہی تھیں۔ کوئی سننے والا نہیں تھا۔ یہی قانون ہے آپکا!۔
جاؤ! پھر آج سے بلوچ بھی اس قانون کو نہیں مانتا
ناموراشتراکیت پسند انقلابی شاعر حبیب جالب کہتے ہیں:
“دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا”۔
اسلام آباد کے راشی پولیس افسران کو کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا ؟ جس نے انسانی حقوق کی پامالی کی ہے۔ جرم کے مرتکب راشی پولیس افسران کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگائی جائے۔ انہیں سزا دی جائے۔ کیونکہ وہ اغوا کاری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ نہتے اور پرامن خواتین اور بچیوں کو ضمانت دینے کا مطلب سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ اسلام آباد میں تخریب کاری کرنے نہیں آئی تھیں۔
ضمانت دینے کے بعد ان خواتین اور بچیوں کو آزاد کیا جائے وہ بھی نہیں کررہے ۔ بلکہ انہیں پنجاب بدر کررہے ہیں۔ بھائی جان!۔ بلوچ پنجاب میں نہیں رہ سکتا؟ ۔ کیا بلوچوں کے لئے پنجاب کوئی دوسرا ملک ہے؟۔ جو آپ انہیں ملک بدر کررہے ہیں۔ زور زبردستی عورتوں کو ہراساں کررہے ہیں۔ زبردستی بسوں میں ڈال رہے ہیں۔ کیا بلوچ کوئی تارکین وطن ہیں؟۔ وہ کسی اور ملک کے باشندے ہیں؟
اگر بلوچوں کو پنجاب بدر کرنا ہے تو یہ شوق بھی پورا کر لیں۔ کوئی مسئلہ نہیں ۔ پھر پنجاب والوں کو بھی ریکوڈک، سیندک، گوادر پورٹ، سوئی گیس فیلڈ سمیت بلوچستان کے تمام علاقوں سے انخلا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ امریکہ نے افغانستان سے کیا تھا۔ بلوچستان کے ساحل و وسائل آپ کو دل و جان سے عزیز ہیں۔ مگر چند عزت دار اور باضمیر بلوچ عورتیں آپ کو کھٹک رہی ہیں۔
اس طرح حکومت نہیں چل سکتی ۔ اگر بلوچ کو مساوی حقوق نہیں دے سکتے ہیں تو یہ ڈرامہ بازی کی دوکان بند کی جائے۔ آپ کا راستہ الگ بلوچ کا راستہ الگ ہوگا۔ یہ جدائی کی لکیر آپ نے نکالی ہے۔ اس عمل کا ذمہ دار پنجاب ہے۔
آپ کی جنگ یہی ہے کہ ستر سالہ ماؤں اور بزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ہے۔ آپ کو اخلاقیات کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ آپ مہذب قوم سے تعلق رکھنے والی خواتین کو غیر مہذب انداز میں تشدد کا نشانہ بناکر غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی بہادری دکھانا چاہتے ہیں۔
رات گئے یہ اطلاع تھی کہ اسلام آباد پولیس نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ لاپتہ راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب، لاپتہ بلوچ طلبا لیڈر اورشبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ کو دوبارہ حراست میں لیکر نامعلوم مقام پرمنتقل کردیا ہے۔ اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ ماہ رنگ بلوچ کو شدید تشدد کا بھی نشانہ بنایاگیا ہے۔
سینیئر صحافی حامد میر اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن اسد بٹ بھی پولیس تھانے پہنچ گئے تھے ان کے سامنے بھی پولیس والوں کا بلوچ خواتین سے بدتمیزی کا سلسلہ جاری تھا۔ اسلام آباد پولیس حامد میر اور اسد بٹ سے بھی الجھ رہی تھی۔ آج (جمعہ کے روز) حامد میر اور اسد بٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ لانگ مارچ کے شرکا کی سماعت میں بھی پہنچے ۔ جہاں انہوں نے پولیس کی بدمعاشی اور پولیس کے رویے کے خلاف اپنا الگ الگ بیان ریکارڈ بھی کرایا۔
اسد بٹ نے میرے قیمتی ووٹ کی لاج رکھ لی۔ حال ہی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے انتخابات ہوئے تھے۔ الیکشن مہم کے دوران اسد بٹ نے مجھ سمیت دیگر بلوچ صحافیوں سے کراچی پریس کلب میں ملاقات کی۔ اور ہمارے ووٹ مانگے تھے۔ واضع رہے کہ ہم بھی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اراکین میں شامل ہیں۔ حالانکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی منیزے جہانگیر نے مجھے لاہور سے فون کرکے ووٹ کی درخواست کی تھی۔ خیر مجھے امید ہے کہ میرے اس جمہوری عمل سے مینزے جہانگیر مجھ سے ناراض نہیں ہونگی۔ کیونکہ الیکشن جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔
مگر صد افسوس، جمعرات کے روز سے نکلنے والا سردار اختر مینگل کا گورنر بلوچستان ملک عبدالولی خان کاکڑ ابھی تک تھانے نہیں پہنچ سکا ہے اور نہ ہی ان کا استعفیٰ صدر پاکستان کو موصول ہوا ہے۔ شاید کاکڑ صاحب کی گاڑی وڈھ کے مقام پر خراب ہوگئی ہے۔
دوسری جانب میرے پیارے دوست اور نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے سوشل میڈیا میں ایک تصویر شائع کی ہے۔ اور اس تصویر کے نیچے یہ کیپشن لکھا ہے کہ انہیں پولیس قید بلوچ خواتین سے ملنے نہیں دے رہی ۔ کیا اس تصویر کے جاری کرنے کے بعد طاہر بزنجو کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟۔ بالکل نہیں ہوتی۔
بزنجو صاحب! آپ کے پاس بلوچستان کی عوام کا مینڈیٹ ہے۔ عوامی مینڈیٹ نے آپ کو سینیٹ سے منتخب کرایا ہے۔ اگر پولیس آپ کی بات نہیں مان رہی تو کیا آپ کو اس سیٹ پر بیٹھنے کا حق حاصل ہے۔ آپ فورا استعفیٰ دیں۔ اور اسلام آباد کی پرفضا ماحول کولات مارکر نال کی طرف کوچ کریں۔ آپ کی بہت مہربانی ہوگی۔
سینئر صحافی حامد میر نے اپنے سوشل اکاﺅنٹ پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ لاپتہ افراد کے نام پر ووٹ لینے والے بلوچ لیڈرز مارچ سے غائب ہیں۔ حامد میر کا یہ اشارہ سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک بلوچ پر تھا۔ حامد میر کی یہ پوسٹ بالکل صحیح ہے۔ انہوں نے بلوچوں کی دل کی بات کی ہے۔ حامد میر اپنے والد محترم وارث میر کے نقش قدم پر رواں دواں ہیں۔ وارث میر صاحب ایک دانشور اور مفکر تھے۔ انہوں نے بھی آمریت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جیسے آج بلوچ کررہے ہیں۔ آج بلوچ قوم تمام پنجابیوں کو یہی مشورہ دیتی ہے کہ وہ حامد میر کو اپنا رول ماڈل بناکر اپنے اندر سچ کو سچ کہنے کی جرات و ہمت پیدا کریں ۔ وگرنہ بلوچ قوم، پنجابی کو ایک بالادست اور شاؤنسٹ قوم تصور کررہی ہے اور مستقبل میں بھی کرتی رہیگی۔