|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2023

بلوچ تاریخ میں ہماری غیرت مند بلوچ مردوں کے ساتھ ساتھ ہماری بلوچ قوم کے عورتوں کی دلیری اور بہادری کی بے شمار داستانیں ہیں ۔آج اگر ماہ رنگ کے سنگ اس مزاحمت کے رنگ میں مرد و عورت پیر و ورنا ہر ایک رنگا گیا ہے

تو یہ ہماری ان بلوچ بہادر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور بلوچ مائوں کی مرہون منت ہے کہ ہنوز یہ مزاحمت زندہ ہے۔
تاریخ کے جھروکوں سے دیکھ لیں بلوچ لشکروں میں بلوچ عورتوں کی بہادری کو دیکھ کر لشکر میں ایک ولولہ اور جذبہ پیدا ہوتا تھا۔چاکر اعظم کی چھوٹی بہن بانڈی بلوچ اور چھوٹی بہو مہناز بلوچ بی بی ملک ناز و دیگر بلوچ عورتیں بہادری اور غیرت کی داستانیں ہیں ہمارے لیے۔
آج ماہ رنگ بلوچ جو ریاستی جبر اور ظلم کا شکار ہے جس کے والد عبد الغفار بلوچ کو ریاست نے سن 2006 میں لا پتہ کیا پھر بازیاب کرکے دو بارہ لاپتہ کرکے سن 2011 میں تشدد زدہ لاش پھینک دی۔ ماہ رنگ بلوچ کے والد کے ساتھ ساتھ ماہ رنگ بلوچ کے بھائی شبیر بلوچ کو بھی ان ظالموں نے اپنا شکار بنالیا۔
ہزاروں بلوچ نوجوان آج لا پتہ ہے ،یہ ظلم اور درد سہتی ہوئی ماہ رنگ بلوچ اور مائیں جن کے جذبات کوہ شاشان سے بھی مضبوط ہیں

جن کی برداشت کی طاقت اور جہد مسلسل بلوچ معاشرے کے لیے قابل فخر ہے ۔آج بی بی ملک نازو گل بی بی زندہ ہے ہمارے ماہ رنگ بلوچ ، و سمی دین بلوچ کی صورت میں۔ہمارے بلوچ قوم کے عورتوں کی فخر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی زندگیاں اسی مزاحمت میں گزری ہیں۔ریاست کی ستائی ہوئی یہ شیرنی کبھی ہمت نہیں ہارتے۔

کبھی کراچی پریس کلب کے سامنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر خوار تو کبھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے یخ بستہ راتوں میں اپنی پیاروں کی بازیابی کی فریادلے کر،کبھی کوئٹہ سے کراچی لانگ مارچ تو کبھی کوئٹہ سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ،ہزاروں کلو میٹر لانگ مارچ کرکے پیروں میں چھالے پڑگئے لیکن ہمت نہیں ٹوٹی ۔بھوک، تپتی گرمی، ٹھنڈی راتیں، لا چار اور بے یارو مددگار ریاستی محافظوں کی غنڈہ گردی سہہ کر یہ بہادر بلوچ عورتیں ،یہ مائیں پھر بھی ہمت نہیں ہارتیں۔
ہمیں فخر ہے ہمارے ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ اور ہماری بہادر بلوچ مائیں اور بہنیں جنہوں نے مزاحمت میں زندگی جی جی کر اس مزاحمت کو نئی زندگی دے دی ہے اور یہ روز بروز توانا ہوتی جارہی ہے ۔جو بلوچستان کے سردار اور نوابوں کے تائو دیتے ہوئے مونچھیں اور دو گز لمبی پگڑیاں نہیں کر سکے، وہ ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ مائوں نے ٹوٹی ہوئی چپلوں میں سفر کر کر کے دکھا دیا۔ آج پوری دنیا میں غیرت و مزاحمت کا علم بلوچ کے نام سے ایک ماہ رنگ بلوچ نے بلند کرکے بلوچ قوم کی عزت افزائی کرکے بلوچ قوم اور ہزاروں بہنوں کی وقار کی حفاظت کی۔
ریاست نے اسلام آباد میں ان لاچار بوڑھے ضعیف العمر مائوں پر اور بچوں بہنوں پر لاٹھی چارج ،ظلم بر بریت، آنسوگیس کی شیلنگ کرکے ٹھٹھرتی یخ بستہ راتوں میں واٹر کینن کا استعمال کرکے بربریت و ظلم کی نئی داستان رقم کی ہے۔

لیکن پھر بھی ان سردار اور نوابوں کی غیرت نہیں جاگی۔سلام ہے اس ایک بہادر اور نڈر صحافی حامد میر کو جو ہماری بہنوں کی سروں پر دست شقت رکھا جو بلوچ مائوں کا غم خوار و ہمدرد بنا ۔جو ریاست کوآئینہ دکھاکرکے ایک غیرت مند صحافی اور انسانیت کا زندہ ثبوت دے دیا ،

اللہ پاک سلامت رکھیں
1948 سے بلوچستان کا پاکستان سے الحاق اور 2023 تک کا بلوچستان کا سفر بس اتنا ہے کہ پچھلے 74 سالوں میں بلوچوں نے ایک دن بھی سکھ کا سانس نہیں لیا۔ ایک فوجی آپریشن کے بعد دوسرا تو دوسرے کے بعد تیسرا، نوجوانوں کا اغوا، تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں، ہر روز سڑکوں پرفورسز کے ہاتھوں عزت نفس کی پامالی اور یہ سلسلہ نہ جانے کب ختم ہوگا کیونکہ ریاست کی روز اول کی پالیسی بلوچ سرزمین کے وسائل کو ہڑپنے کا ہے اور بلوچوں کا وجود اسے برداشت نہیں ہے ۔