آٹھ فروری کے الیکشن کاطبل بجتے ہی ملک بھرمیں الیکشن کی گہماگہمی کاآغازہوگیاہے،اس سلسلے میں آصف علی زرداری اور نوازشریف خصوصی طورپربلوچستان کوفوکس کررہے ہیں ،
آئے دن دورے،الیکٹیبلز کی شمولیت ،جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ ملاقاتوں کاسلسلہ بھی جاری ہے،برسوں سے حکمرانی کرنے والی دونوں بڑی جماعتوں نے بلوچ اوربلوچستان کوحقوق دینے کے لیے کمرکس لی ہے اس سلسلے میں ان جماعتوں میں ہونے والی شمولیتوں پرآوازے بھی کسے جارہے ہیں کوئی کہتاہے کہ یہ الیکٹیبلزآزمائے ہوئے ہیں،کوئی کہتاہے کہ
ہرجماعت میں رہنے والے یہ سیاست دان ان جماعتوں کے لیے بھی نقصان کاباعث بنیںگے ۔کچھ نے توخدشہ ظاہرکیاہے کہ کمپنی خسارے میں ہے لہذا اپنے شیئر کی نیلامی کی جارہی ہے اور یہ الیکشن تک جاری رہیگا۔
کچھ توڈیپوٹیشن پالیسی کاحصہ قراردے کرآس لگائے بیٹھے ہیں کہ جولوگ ان جماعتوں میں گئے ہیں پھر واپس آئیں گے۔ شومئی قسمت کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوصوبے کی وزارت اعلیٰ کے منصب پرفائز بھی رہے۔
لیکن دوسری جانب اسی بلوچستان میں کچھ اور بھی ہورہاہے۔ جہاں ہمارا میڈیا گنگ،سیاسی قیادت بے گانہ اور عدلیہ تماشائی کاکرداراداکررہی ہے۔ بالاچ مولا بخش کے مبینہ جعلی مقابلے میں قتل سے اٹھنے والی آوازوں کی گونج آج اسلام آباداورلاہورکے ایوانوں تک دستک دے رہی ہے۔ بالاچ مولابخش کو29اکتوبرکوتربت میں اپنے گھرسے لاپتہ کیاگیاتھا،جس کی ایف آئی آربھی درج کرائی گئی تھی،
بعدازاں بالاچ کو21 نومبرکوجوڈیشل عدالت میں بھی پیش کیاگیاپھر اچانک خبرآئی کہ بالاچ سمیت دیگرتین افرادکی لاشیں بھی کیچ اسپتال لائی گئی
ہیں جن میں دوکوسیف اللہ اور شکور کے نام سے شناخت کیاگیاجوبالاچ ہی کی طرح مبینہ طورپرپہلے سے زیرحراست تھے۔ واقعے پرتربت میں احتجاج شروع ہوگیا جس نے دھرنے اور پھر ایک تحریک کوجنم دیا۔
ا س طرح کے جعلی مقابلے کراچی میں بھی کافی معروف رہے ہیں،جہاں گھرسے زندہ اٹھاکرکسی سڑک پرگولیوں سے بھون کرلاش پھینکنااورکہنا کہ مقابلے میں ماراگیاہے۔اورکئی تواس طرح بھی مارے گئے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اورپیررسیوں سے بندھے گئے تھے۔
اس واقعے پرہوناتویہ چاہیے تھاکہ ان کے لواحقین کوانصاف فراہم کیاجاتابلکہ الٹا ‘’چورمچائے شور’’کے مصداق مقتول کے لواحقین کے احتجاج کوہی نشانہ بنایاجارہاہے،متاثرہ خاندان جب کوئٹہ پہنچاتونگراں صوبائی وزیراطلاعات نے بالاچ کودہشت گردبھی کہا اورکئی وارداتوں کاانکشاف بھی کروایا،
موصوف غالباً اعتراف کررہے تھے کہ
یہ حراستی قتل تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بالاچ کے حراستی قتل کے بعدڈاکٹرماہ رنگ،سمی دین محمد ،سعدیہ بلوچ ،سیما،ماہ زیب اوردیگردختران بلوچ کااحتجاج اس وقت اسلام آبادکے ایوانوں میں لرزہ طاری کررہاہے،اسلام آبادپولیس کاشدیدسردی میں خواتین اوربچیوں پرواٹرکینن کااستعمال ،تشدد لاٹھی چارج گرفتاریاں
اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ وفاق پاکستان میں بیٹھی قوتیں بلوچ کی بات کسی صورت سننے کوتیارنہیں، ڈیڑھ ماہ سے جاری احتجاج پرپوری میڈیاخاموش رہی لیکن جب یہ لانگ مارچ جیسے ہی اسلام آبادکے دروازوں پردستک دینے پہنچا توٹی وی چینلزپرمارچ کے خلاف خبریں
اور تجزیے شروع کرادیئے گئے اور اس مارچ کوبھارت سے جوڑناشروع کیا گیا۔ اور ان میں بیشترخبریں اورریٹائرڈلوگوں کے تجزیے اسلام آباداورلاہورسے نشرکیے جانے لگے۔جبکہ بالاچ کے قتل کاواقعہ تربت میں ہوا اور احتجاج کاآغاز کوئٹہ سے ہوا ۔ان ٹی وی چینلز کواتنی بھی جرات یا توفیق نہیں ہوتی کہ بلوچستان پربات ہورہی ہے
توکم از کم اس صوبے سے ہی کسی واقف کار کولائن پرلیاجاتا۔ گزشتہ تین دن سے شہداء اورلاپتہ افرادکے لواحقین کو اسلام آبادکے مختلف تھانوں میں مبینہ طورپرتشددکانشانہ بنایاجارہاہے لیکن افسوس کہ اب تک عدلیہ بھی گہری نیند سے بیدارنہیں ہوئی۔
حکمران اوران کے کاسہ لیس کچھ بھی کہیں اب یہ بحربلوچ سے اٹھنے والا طوفان مہران کی وادی اور کوہ سلیمان کے دامن سے لے کرپنجاب ،سرائیکی وسیب ، گلگت بلتستان اورکشمیرکی برف پوش وادیوں کوچھورہاہے۔
ہرطرف سے ناانصافی اورظلم کیخلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ظالم حکمرانوں سے ہرکوئی پریشان اور افسردہ ہے، ویسے بھی عالمی سطح پر ملک کی اتنی سبکی ہوچکی ہے کہ مزیدکی گنجائش باقی نہیں رہی،ایمنسٹی انٹرنیشنل،ٹرانسپرنسی،انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت عالمی اورمقامی سطح پر حکمرانوں کی مذمت کی جارہی ہے۔کراچی سے خیبرتک عوام سراپااحتجاج ہیں۔
موجودہ صورتحال میں اس قوم کے پاس دورہی راستے ہیں کہ وہ بلوچستان میں نوکری کے لیے ادھرادھربھاگ دوڑ کرنے والے سیاست دانوں کادامن پکڑیں یا پیراہن چاک چاک۔۔۔۔