تْم نے جِس خْون کو مَقتل میں دَبانا چَاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
صوبہ بلوچستان اپنی ذات میں ہمیشہ ایک مزاحمتی علامت کے طور پر رہا ہے، ان کے اس مزاحمتی اور انقلابی رویے کے پیچھے بہت ساری مجرمانہ وجوہات ہیں۔ ان وجوہات کا حل تلاش کرنے کی بجائے اہل مقتدر اور ارباب اختیار نے ان کو ہر زمانے میں دبانے کی ناکام کوششیں کیں ہیں مگر تاریخ میں جب ایک نظریے کو زبردستی دبانے کی کوشش کی گئی
ہے اس سے اس نظریے کو مزید اٹھنے کی تقویت ملی ہے۔ ریاست کو ہر مزاحمتی تحریک اور الجھے ہوئے معاملے کے ساتھ سنجیدگی
سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو جہاں پر ممتا کا روپ دھارنا چاہیے
وہاں جلاد کی طرح لاٹھی لیے کھڑی ہو جاتی ہے۔
چند دنوں کی بات ہے کہ ایک بلوچ بیٹی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی مارچ تربت سے اسلام آباد پہنچا جس میں بچے، خواتین، جوان اور بوڑھے سب شامل ہیں۔ یہ مارچ بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک آواز ہے اور بلوچ لوگوں کی جبری گمشدگی کے خلاف ایک متحرک تحریک ہے۔ ریاستی امراء اور وفاقی انتظامیہ نے اس معاملے میں سنجیدگی دکھانے کی بجائے
اور ان کی آواز سننے کی بجائے مارچ کے شرکاء پر اسلام آباد میں واٹر کینن پھینکے، ان پر لاٹھی چارج کی عورتوں اور مردوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ ان کی آواز سننے کی بجائے ان کی جبری بے دخلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ آئین کے اندر غیر جمہوری اور غیر انسانی رویہ شمار کیا جاتا ہے۔
مارچ کے شرکاء میں وہ والدین بھی ہیں جو اپنے لخت جگر کے دس پندرہ سالوں سے گمشدگی کا سوگ منا رہے ہیں ، وہ بہنیں بھی ہیں جن کو اپنے جوان بھائیوں کے مردہ یا زندہ ہونے کی کوئی خبر نہیں اور وہ جوان بیوہ عورتیں بھی ہیں جن کا سہاگ ان سے ملے بغیر بچھڑ گئے ہیں وہ کئی سالوں سے سوگوار فضا میں چھاتی پیٹتی، بال نوچتی رہتی ہیں۔
کثیر القومی ریاست میں وفاق کی طرف سے پر امن احتجاج کرنے والوں کے ساتھ جبری رویہ مسائل کا حل ہرگز نہیں ہوتا بلکہ وہ کئی اور متعلقہ مسائل کو جنم دے سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملک دشمن قوتیں اس عمل سے مزید طاقتور بن جاتی ہیں۔
اس وقت ملک کے اہم اور بڑے عہدوں پر بلوچستان کے نمائندے ہی براجمان ہیں جن میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیٹ چیرمین صادق سنجرانی ہیں۔ ان بڑے عہدیداران نے اس معاملے پر کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی اور نہ ہی بلوچ بہنوں اور ماؤں کو کسی قسم کی مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان کے عوام کو کم آبادی کثیر رقبہ اور بے تحاشا وسائل کے باوجود بھی ظلمت کے اندھیرے کنویں میں رکھا گیا ہے۔ بلوچستان کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات، تعلیم و ترقی سے محروم رکھا گیا ہے، بیشتر علاقوں کے مکینوں کو پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ جس صوبے کے پاس سیندک، کوئلہ، گیس،
کرومائٹ اور دیگر معدنیات وافر مقدار میں موجود ہوں، پھلوں اور سبزیوں کی فراوانی ہو، بندرگاہوں سے ملکی تجارتی ضروریات پوری کرنے میں بنیادی کردار سر انجام دے رہا ہو بلکہ پورے ملک میں ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہو اور وہاں کے باشندے دو وقت پیٹ بھر کے کھانا نہ کھا سکیں، پہننے کے لیے لباس کو ترس رہے
ہوں تو یہ بات واضح ہے کہ بڑے پیمانے پر ظلم اور استحصال کی داستان رقم کی جا رہی ہے اور فسطائیت کا دور دورہ ہے۔
یہ بات نہایت کانٹے دار ہے مگر حقیقت پر مبنی ہے کہ
برطانیہ نے برصغیر کو کالونی بنایا تھا، یہاں کے آباد کار وسائل اور معدنیات کو آبائی ملک یعنی برطانیہ منتقل کر رہے تھے آباد کاریاں اور فیکٹریاں وہاں قائم ہو رہی تھیں جب کہ خام مال ہندوستان سے لے جایا جا رہا تھا۔ ہندوستانیوں کی زمینوں سے ان کے وسائل انہی کے کاندھوں پر لاد کر کے نکال لیے تھے مگر ان پر خرچ نہ کیا بلکہ جو تھوڑی بہت دے رہے تھے اس پر بھی احسان مندی کے طعنے دے رہے تھے۔
بعینہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے اور بلوچستان بطور ایک کالونی استعمال ہو رہا ہے۔ بلوچستان کے پانچ دس فیصد طلباء کو سکالرشپس دے کر احسان جتایا جا رہا ہے جب کہ نوے پچانوے فیصد تعلیمی حقوق سلب کرنے پر خاموش تماشائی بنے ہیں اس ریاستی جبر و ظلمت میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام، بلوچستان کے مقامی سردار، وڈیرہ، نواب اور میر وغیرہ سب برابر کے شریک ہیں۔
پاکستان کی مختصر تاریخ میں مشرقی پاکستان بھی وقت کی نااہل، متکبر اور سرکش قیادت کی وجہ سے علیحدہ ہوا جو کہ تاریخ میں ایک بڑا المیہ ہے۔ بنگالی جب اسلام آباد آتے تو یہ کہتے کہ یہاں کی خوبصورتی سے ہمیں ہماری پٹسن کی بو آ رہی ہے۔
اس سے ان کو اپنے ساتھ استحصالی رویے کا احساس ہو رہا تھا۔ اسی طرح دیگر صوبوں کے ساتھ وہی رویہ اپنانا احمقانہ حرکت ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو نہ کہیں ظالم کو پناہ ملی ہے اور نہ ظلم کو دوام ملا ہے۔ اس کے باوجود ظلم کا روپ دھارنا خود کو اور قوم کو گہرے گڑھے میں گرانے کے برابر ہے۔
ریاستی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ملک کے اندر ہر چھوٹے بڑے معاملے کو گہرے افہام و تفہیم سے حل کرے اور اس میں نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ تشدد، مار دھاڑ، افراتفری، جبری گمشدگی مسائل کو حل نہیں بلکہ دگنا کر دیتی ہے۔
جو حقیقی مجرم ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ ظالمانہ روپ میں نہیں بلکہ ممتا کے روپ میں ہر مسئلے کو سلجھانا وقت کی ضرورت ہے۔