زندگی کے تمام تر شعبوں میں پستیوں سے دوچار ہونے کے باوجود پاکستان نے یکّہ و تنہا جس میدان میں کمال کی حد تک ترقی و پیش رفت کی ہے وہ میدان اِس کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے کہ اس ریاست میں آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں لوگوں کی گفتگو کو ریکارڈ کر کے بوقت ضرورت نشر کیا جاتا ہے اب یہ ” دھندہ ” تعریف یا پھر مذمت کے قابل ہے اِس دو رخی سوال کو جواب کی تْشنگی کے ساتھ شاہی دربار میں سوالی بن جانے دیجیئے۔ عمران خان بہ حیثیت وزیر اعظم اس عمل کی تعریف کرتے رہے ہیں عمران خان سمیت اِس ملک کے کسی بھی پارلیمانی سیاست دان اور قائد کو ” خواہ وہ بلوچ ہی کیوں ہوں” اس قسم کے اقدامات پر ، کہ ہر خاص و عام کی گفتگو ریکارڈ ہوں ، کوئی اعتراض نہیں ہے نہ ہی یہ لوگ اپنے محسنوں” جن کی بدولت یہ لوگ اسمبلیوں کے ممبرز ہیں” کے اعمال اور حرکات پر نقطہِ اعتراض اْٹھا سکتے ہیں ۔مقتدرہ کی جانب سے پی پی کو عطا کردہ ایک تروتازہ تحفہ “جیالا ” سرفراز بگٹی سرِعام اعلان کر چکے ہیں کہ جو لوگ لاپتہ ہیں وہ گھر میں بیویوں سے جھگڑا کر کے کراچی چلے گئے ہیں، پی پی کی ایک اور بلوچ جیالا اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تربت میں دہشت گرد مزدوروں کو مارتے ہیں تو یہاں کے لوگ اس عمل کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کرتے مگر جب دہشت گرد مار دیئے جاتے ہیں تو یہاں کے لوگ احتجاج کرتے ہیں ۔اس طرح جیالا سمجھتے ہیں کہ انہوں نے چونکہ قول و فعل کی تضاد کو طشت از بام کر دیا ہے”حالانکہ یہ دلیل بے سر و پا اور معروضی حقائق کے منافی ہے” لہٰذا آئندہ انتخابات میں مجھے بھرتی ہو کر کامیاب ہونے کا ” ادھیکار ” حاصل ہے یہ تو دو تازہ مثالیں ہیں پر اِس ریاست کی پارلیمنٹ میں موجود اگر سارے نہیں تو زیادہ تر پارٹیوں کے قائدین مذکورہ موقف کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں مگر یہاں پر ناقابلِ قبول نکتہ یہ ہے کہ اگر گھریلو ناراضگیوں کے سبب لوگوں نے کراچی ، افغانستان یا پہاڑوں کو مسکن بنا لیا ہے اور وہ لوگ واپس آنا نہیں چاہتے تو اس ملک میں جب ججوں کی گفتگو آڈیو یا ویڈیو کی شکل میں سامنے آ سکتی ہے، ملک ریاض اور آصف زرداری کی گفتگو ہو یا پھر عورتوں کے ساتھ عمران خان کی آڈیوز لیک ، سامنے آ سکتی ہیں تو ان ناراض لوگوں کی گفتگو سامنے کیوں نہیں آتی اور جہاں تک سوال دہشت گردی کا ہے تو یہ لوگ اگر واقعی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے باعث مجرم ہیں تو ملک اور عدالتوں پر پنجاب کا غلبہ ہے پھر وہ ان دہشت گردوں کو جو پہلے ہی گرفتار ہونے کے سبب عقوبت خانوں میں متواتر اذیت برداشت رہے ہیں سامنے کیوں نہیں لاتے۔ بلوچ قطعاً یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ لوگ بیگناہ یا گنہگار ہیں ان کا التجابس یہی ہے کہ بلوچ اگر اْسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری سے زیادہ خطرناک مجرم اور دہشت گرد ہیں آپ یہ کہیئے کہ ان بلوچوں نے مذکورہ دہشت گردوں کی طرح منڈی اور بازار سے ایٹمی ٹکنالوجی خریدنے اور اس کو ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں کی ہیں لہٰذا بلوچوں سے بدترین دہشت گرد دنیا کی تاریخ میں موجود ہی نہیں رہے ہیں ۔خطہ ارض کے خطرناک ترین دہشت گرد بلوچ ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالت آپ کے ہیں آپ ان بلوچوں کو قانونی طور پر سزا دے کر تختہ دارپر لٹکا سکتے ہیں پھر آپ نے اپنے کردار کو دنیا کے سامنے کیوں مشکوک، متنازعہ اور قابلِ نفرت بنا دیا ہے ، آپ ان سب کو سامنے لائیں اور پھانسیاں دیں یا اگر وہ مر گئے ہیں تو ریاست اعتراف کر ے کہ لاپتہ لوگ زندہ نہیں ہیں مگر جس طرح کہ ریاست کا موقف ہے وہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ دنیا بھر کے کسی بھی انسانیت دوست شخص کے لیئے قابلِ قبول نہیں ہے۔ پنجاب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک کا وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بلوچستان سے ہیں جبکہ بلوچ سمجھتے ہیں کہ انوار الحق کاکڑ اپنی فطرت میں بلوچستانی اور نہ ہی پشتون ہیں، وہ مقتدرہ کا ایک خاص منظور نظر اور گماشتہ ہے۔ چیئرمین سینٹ اگر عملاً بلوچ ہوتے تو بلوچ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے ساتھ اس طرح نہ ہوتا۔ یہ بھی کہ یہ لوگ بلوچ ننگ و ناموس اور مفادات کے محافظ ہوتے تو اب تک عہدوں کو چھوڑ چکے ہوتے مگر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ سرکاری عہدوں، مراعات اور پروٹوکول کو چھوڑ دیں یا پھر مذکورہ اقدامات کی مذمت تک کریں۔ چیف جسٹس بلوچستان سے ہیں وہ فیض آباد دھرنا کیس پر سوموٹو لے سکتے ہیں وہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے سخت اسٹینڈ لے سکتے ہیں ،وہ بھٹو کیس پر اسٹینڈ لے سکتے ہیں مگر بلوچ جو سالہاسال سے لاپتہ ہیں ان گمشدہ بلوچوں کے لئے اگر اسٹینڈ نہیں لیتے اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں مقتدرہ ناراض نہ ہو جائے تو ان کے متعلق کوئی کیا کہے ،ان کو اگر کچھ کرنا ہوتا تو وہ اب تک سوموٹو لے چکے ہوتے۔ اب اس قسم کے لوگ بلوچستان کے ہوں یا پنجاب کے، کیا فرق پڑتا ہے ۔ان بلوچستانی منصب داروں سے تو ایمان مزاری، حامد میر اور اسد طور قابلِ ستائش ہیں جو اگرچہ بلوچستان کے نہیں ہیں مگر اعلیٰ اقدار کے انسان ہیں اور دل میں انسانیت کے لئے درد رکھتے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جس طرح مقتدرہ نے بنگال کو پاکستان سے الگ کرنے کا فیصلہ محمدعلی جناح کے دور میں ہی کرلیا تھا اور 1970ء کے انتخابات کے بعد اس پر عمل کرلیا ، بالکل اْسی طرز پر مقتدرہ نے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ اگر یہ فیصلہ نہ کرتے تو پرامن بلوچ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر اس طرح یلغار نہ کرتے ،نہ ہی بلوچوں کو پنجاب بدر کرنے کی کوشش کرتے ۔اس قسم کے اقدامات سے لگتا ہے کہ پاکستان کی مقتدرہ ایک خاص ایجنڈے پر عمل پیرا ہے پھر یہ بھی کہ پنجاب میں کسی بھی سیاسی پارٹی” چاہے وہ نواز شریف کیوں نہ ہوں جو خود کو ملک کا نجات دھندہ سمجھتا ہے” اور مذکورہ صحافیوں کے علاوہ پنجاب کے کسی بھی صحافی نے اس بربریت کی مذمت نہیں کی ہے ۔ہمارے اپنے قائدین قوم پرستی کا نام لے کر لوگوں سے ووٹ کے طلبگار ہیں مگر لگتا ہے کہ ان قائدین کا قوم پرستی کا نعرہ فقط ووٹ حاصل کرنے تک محدود ہے ۔اس سے آگے بلوچ عورتوں، بوڑھوں، جوانوں، طلبا اور طالبات کے ساتھ مقتدرہ کسی بھی قسم کا ظلم کر دے یہ لوگ خاموش تماشائی رہیں گے اگر زیادہ کارکردگی دکھا دیں تو ایک دو بیان دے سکتے ہیں اس سے زیادہ یہ لوگ کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے ،یہ لوگ اگر عملاً قوم پرست یا انسانیت دوست بھی ہوتے تو آج وہ سب دھرنے میں شامل ہوتے لیکن یہ لوگ دھرنے میں شامل ہو جائیں تو اس سے مقتدرہ ناراض ہو کر ان کو انتخابات میں شکست سے دوچار کروا سکتا ہے لہٰذا یہ لوگ فارم جمع کرنے اور انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں لیکن ایک قوم کے قائدین جب اس قدر لاچار، کمزور اور بے بس ہوں اْس ملک میں ووٹ کا ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ بھی کہ جب عوام کے نمائندے بے اختیار رہیں گے یا عوام کے ووٹوں سے عوام کے نمائندے منتخب نہیں ہو سکیں گے تو ملک کے عوام کیوں اور کس مقصد کے تحت ووٹ دیں؟ ویسے بھی ملک کے سارے اختیارات مقتدرہ کے پاس مرتکز ہیں تو ووٹ کی ڈرامے بازی سے بہتر یہی ہے کہ مقتدرہ اپنے لوگوں کو خود اور براہ راست بھرتی کر دے تاکہ وہ ایک دوسرے کی خدمت کر سکیں۔
حد چاہیئے سزا میں عقوبت کے واسطے
وقتِ اشاعت : December 29 – 2023