کوئٹہ: سابق آئی جی ایف سی بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈسلیم نوازنے کہا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے بلوچستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں پہلے بھی ملوث تھا۔ بھارتی افسر کی گرفتاری سیکورٹی فورسز کی اہم کامیابی ہے اب حکومت کو اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے۔ یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ سلیم نواز نے کہا کہ بھارتی خفیہ ادارے کے حاضر سروس آفیسر کی گرفتاری ایک بہت بڑی اورقابل فخر بات ہے اس پر تمام سیکورٹی اور انٹیلی ایجنسیز اور پاکستانی قوم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ایک زندہ سرونگ آفیسر کو گرفتار کرنا بہت بڑی بات ہے ۔را کی مداخلت بلوچستان میں بہت پرانی ہے اور اسے راستہ افغانستان کے ذریعے ملتا ہے۔ جہاں ان کے پاکستانی سرحد قریب کے دس سے زائد قونصل خانے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ بھارتی خفیہ آفیسر آج بلوچستان نہیں آیا تھا بلکہ بہت پہلے سے یہاں موجود ہوگا لیکن اب چونکہ حکومت اور ایجنسیوں نے مؤ ثر انداز سے کام شروع کیا ہے اور بلوچستان کے نوجوانوں کو کالعدم تنظیموں سے ہٹا کر قومی دھارے سے جوڑ ا جارہا ہے اس لئے اب یہ ایجنٹ اور غیر ملکی گرفتار ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی خفیہ آفیسر کی افغانستان سرحد سے پاکستان نقل و حرکت ہوتی ہے اور ان کے بی آر اے، بی ایل اے، بی این ایف اور دیگر علیحدگی پسند تنظیموں سے رابطے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے دور میں بھی ان کے کئی رابطے دیکھے ہیں ۔ اللہ نذر، جاوید مینگل، حیربیار اور براہمداغ بگٹی سے ان کے رابطے کے ثبوت ہم انڈیا کو دے چکے ہیں۔ اللہ نذر جوآجھکل دکھائی نہیں دیتا ہے شاید وہ مارا جاچکا ہے۔ ان سے بھارتی اداروں کے رابطے تھے اور وہ انہیں فنڈ کیا کرتے تھے۔ اللہ نذر سے ہم میجر شرما اور میجر ورما نام کے افسران کی باتیں سنتے رہتے تھے جو وہ سیٹلائٹ فون پر کرتے تھے۔ ایسے خفیہ ایجنٹ دور کی آبادی میں نام تبدیل کرکے رہتے ہیں اور آنے کے بعد لوگوں کے ساتھ گل مل جاتے ہیں ۔ بہت نیک بنتے ہیں لیکن اندر سے وہ ملک کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ انہیں انڈیا سے مقامی زبانیں سکھا کر مسلمان کے روپ میں بھیجا جاتا ہے بعض دفعہ تو ان کے ختنے بھی کردیئے جاتے ہیں تو پکڑے جانے کی صورت میں بھی وہ بچ نکل سکے۔انہوں نے کہا کہ یہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ آج بھارت میں سناٹا ہوگا۔ بھارتی حکومت کیسے تسلیم کرے گی کہ یہ ہمارا آدمی ہے ۔لیکن میڈیا نے اس بھارتی ایجنٹ کے گھر کو جو ایڈریس دیا ہے اس پر بھارتی میڈیا کو بھی وہاں جاکر پتہ کرنا چاہیے اور ان کے خاندان کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ ہماری میڈیا، حکومت اور دانشوروں کو بھی اس معاملے پر ملکی اور عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے کہ بھارت کس طرح ہمارے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے۔