|

وقتِ اشاعت :   March 25 – 2016

یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایران کے صدر حسن روحانی دو روزہ دورے پر آج جمعہ کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں ان کو دورہ پاکستان کی دعوت وزیراعظم نواز شریف نے تہران کے دورے کے موقع پر دی تھی جو انہوں نے قبول کر لی تھی۔ صدر روحانی اپنے ساتھ ایک بہت بڑا وفد ساتھ لا رہے ہیں اور توقع ہے کہ اس دورے کے دوران کئی ایک معاہدوں پر دستخط ہوں گے ۔ ان کے وفد میں تاجروں اور صنعت کاروں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے ۔ ایران ہمارا پڑوسی ہے ایران کے ساتھ تقریباً 900کلو میٹر طویل مشترکہ سرحد موجود ہے اس کے ساتھ 3000کلو میٹر طویل ساحل مکران کا ایک حصہ بلکہ بڑا حصہ ایران کے پاس ہے اور دوسرا پاکستان کے ساتھ ہے ۔ سرد جنگ کے دوران خصوصاًشہنشاہ ایران کے دور میں پاکستان اور ایران دونوں امریکا کی زیر سرپرستی فوجی معاہدوں کا حصہ رہے ہیں ۔ انقلاب عراق کے بعد اس کا نام بغداد پیکٹ سے بدل کر سنٹوCENTOرکھ دیا گیا ۔ انقلاب ایران کے بعد یہ فوجی معاہدہ اپنی قدرتی موت مر گیا اس طویل عرصے میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات قریبی اور برادرانہ رہے ہیں مگر یہ تعلقات ہمیشہ سیاست تک ہی محدود رہے ۔ انقلاب ایران کے بعد ایران کے طرز عمل اور پالیسی میں تبدیلی آگئی اور ایران سیاست سے زیادہ زورتجارتی تعلقات پر دیتا آرہاہے ۔ پاکستان کا رویہ اس کے برعکس تھا اور آج بھی ہے پاکستان کونہ سیاست سے دلچسپی ہے اور نہ ہی تجارت سے ۔ گزشتہ تیس سالوں میں ایران دونوں ممالک کے معاشی تعلقات پر زیادہ زور دیتا آرہا ہے ۔ مگر پاکستان اور اس کے حکمرانوں کو تجارت سے زیادہ اسمگلنگ کے فروغ سے دلچسپی ہے ۔ پاکستان نے یہ کوشش نہیں کی کہ ایران سے تیل قانونی طورپر درآمدکی جائے تاکہ ریاست کو ٹیکس ملے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی آمدنی میں اضافہ ہو ۔ پاکستانی حکام تیل اور دوسرے اجناس کی اسمگلنگ کی سرپرستی کرتے نظر آرہے ہیں جس کا فائدہ صرف سرحدی محافظین اور اسمگلروں کو ہوتا ہے بلکہ یہاں تک کہ ایران نے سرحدی علاقوں میں سرحدی مارکیٹ بنانے کی تجویز تیس سال قبل پیش کی تھی مگر آج تک اس پر حکومت پاکستان یا اس کے طاقت ور اہلکاروں نے عملدرآمد نہیں ہونے دیا ۔ حال ہی میں کسٹمز کے ایک اعلیٰ افسر نے ایران کا دورہ کیا تھا اور ایرانی تجویز کی اس نے مخالفت کی اور کہا کہ بلوچستان کے سرحد پر کم سے کم منڈیاں قائم کی جائیں شاید وہ اسمگلنگ کو ترجیح دینا چاہتے تھے ۔ اب یہ ایک اہم موقع آیا ہے پاکستان نے بھی ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ہٹا دی ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے کا اچھا موقع ہاتھ آیاہے اس کو ضائع نہ کیاجائے اور باہمی تجارت کو ترقی دی جائے ۔ گوادر کو پاکستان ریلوے کے نظام کے ساتھ کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے کے ساتھ منسلک کیاجائے تاکہ چاہ بہار پورٹ کی تجارت بھی اسی ریلوے لائن سے ہو اور ایران پر پاکستان کا اعتماد بڑھے اور دونوں ملکوں کے درمیان ریل کے ذریعے تجارت ہو بلکہ کوئٹہ ‘زاہدان ریلوے لائن کو بین الاقوامی معیارکے مطابق تعمیرکرنے کے بعد پاکستان دنیا بھر سے خصوصاً ترکی اور ایران سے ریل کے ذریعے تجارت کرسکے گا۔ا س میں بار برداری کے اخراجات کم ترین ہوں گے اور اس کے ذریعے ایران سے تیل بھی درآمد کیا جاسکے گا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان ایران سے بجلی خریدنے کے تمام معاہدوں کو صدر روحانی کے دورے کے موقع پر آخری شکل دے تاکہ بلوچستان کے سرحد پر موجود کم سے کم تین ہزار میگا واٹ بجلی سستے داموں خریدی جا سکے ۔ واضح رہے کہ پاکستان میں بجلی کی تیاری پر فی یونٹ بارہ روپے اخراجات آتے ہیں اور ایران اس کو نصف قیمت پر فروخت کرنے کوتیار ہے ۔ اچھا موقع ہے کہ سستی بجلی ایران سے خریدی جائے اور جنگی بنیادوں پر ایران سے بلوچستان تک بجلی کے ٹرانسمیشن لائن پر کام کیاجائے تاکہ ایک سال کے اندر اندر ملک کے دور دراز علاقوں کو بجلی ملے اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو ۔ بلوچستان میں بھی بجلی کی کمی کو پورا کیا جائے تاکہ یہاں بھی ترقی کی رفتار میں تیزی آئے اور اس کے فائدے عوام کو ملیں بہر حال ایران کے ساتھ ہر قسم کے تصادم سے گریز کیاجائے کیونکہ تصادم کا مطلب صرف اور صرف تباہی ہوگا۔