امن کی کوششوں کو اس وقت نقصان پہنچا جب طالبان کے سب سے بڑے دھڑے نے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا اور مذاکرات میں شرکت کے لئے بعض شرائط عائد کیں ۔ ان شرائط میں غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلاء اور طالبان رہنماؤں کی آمد و رفت پر پابندیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان کو زیادہ دلچسپی موسم بہا رمیں تابڑ توڑ حملوں کی ہے جس کی وہ منصوبہ بندی کررہے ہیں اس کے بعد ہی طالبان کوئی حتمی فیصلہ کریں گے۔ پاکستان کاطالبان پر اثر ورسوخ کام نہیں آسکا اور آئندہ بھی یہ پاکستان کے لئے ایک مشکل کام ہوگا کہ وہ طالبان کے بعض دھڑوں کو مذاکرات کے میز پر لائیں ۔ دوسری طرف افغان قوم پرست جو حکومت میں ہیں یا حکومت سے باہر دونوں پاکستان پر زیادہ تیزو تندحملے کررہے ہیں اور افغانستان میں مداخلت کا الزام لگارہے ہیں ۔ افغان حکومت کے اندر اختلافات ہیں خصوصاً افغان مذاکرات میں پاکستان کے کردار پر ۔ اشرف غنی اس بات کی حمایت کررہے ہیں کہ پاکستان کا افغان امن مذاکرات میں بھرپور کردار ہونا چائیے مگر اس کے مخالفین متحد نظر آرہے ہیں اس کی وجہ سے سابق خفیہ پولیس کے سربراہ نے اختلافات کی بناء پر استعفیٰ دے دیا اور دو دھڑوں کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھ گئی جس کی وجہ سے افغانستان میں امن کے امکانات زیادہ مخدوش ہوگئے اور پورے خطے میں ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اس کا احساس کرتے ہوئے امریکا نے طالبان اور داعش کے ٹھکانوں پر بمباری میں اضافہ کیا اور افغان افواج بہت سارے علاقوں میں طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے خلاف شدید لڑائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور روزانہ درجنوں ہلاکتوں کی خبریں آرہی ہیں ایسی صورت حال میں یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کوئی زیادہ موثر کردار ادا کر سکے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ صرف اور صرف جنگ لڑیں گے اور اقتدار پر قبضہ کر لیں گے لیکن دوسری جانب ناٹو افواج اور امریکی جنرل نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے اور ان کی افواج افغانستان میں موجود رہیں گی تاوقتیکہ کہ دہشت گرد تنظیمیں ‘ داعش ‘ القاعدہ اور طالبان کے جنگجو عناصر کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا ۔ موجودہ صورت حال میں امن کے امکانات معدوم نظر آرہے ہیں جس سے پورے خطے میں امن کو خطرات لاحق رہیں گے اور امن دشمن قوتوں کو فائدہ ہوگا ایسی صورت حال میں پاکستان اپنا اثرورسوخ زیادہ شدت کے ساتھ استعمال کرے اور طالبان کے تمام دھڑوں کو مجبور کرے کہ وہ اولیت مذاکرات اورامن کی بحالی کو دیں ۔ موسم بہار کے حملے کی صورت میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ا س کی وجہ سے کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہوجائے گی یا طالبان مشرق یا جنوب میں بعض افغان علاقے آزاد کر لیں گے اور اپنی چھوٹی سی حکومت بنا لیں گے اس قسم کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ پوری بین الاقوامی برادری طالبان کو یہ اجازت ہرگز نہیں دیگی کہ وہ کابل پر قبضہ کریں یا طالبان پیدل جنگجو کا بل پر قبضہ کریں ۔دنیا اور بین الاقوامی برادری اس کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی بلکہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امن دشمن قوتوں کو شکست فاش اور افغانستان میں دائمی امن قائم ہوجائے ۔ پاکستان کو بھی امن قوتوں کا ساتھ دینا ہوگا اگر طالبان اس بات پر راضی نہیں ہوتے کہ وہ افغان امن مذاکرات میں شریک ہوں گے تو حکومت پاکستان ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرے اور ان سے تمام سہولیات واپس لیکر ان سب کو جمع کرکے ان کو اہل خانہ کے ساتھ ملک بدر کرے کیونکہ ان کی موجودگی ملک کے لئے نیک نامی کا باعث نہیں ہے بلکہ ملک دشمن عناصر اس کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کریں گے۔ افغان قوم پرست پہلے ہی الزامات لگا رہے ہیں کہ پاکستان طالبان کی امداد کررہا ہے جبکہ پاکستان اس کی شدید الفاظ میں تردید کرتا آیا ہے ۔ پاکستان کی دلچسپی پورے خطے میں امن سے ہے جنگ سے نہیں ہے پاکستان کبھی بھی جنگ کی حمایت نہیں کرے گا پاکستان بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر پورے خطے میں امن کے قیام کا خواہش مند ہے ۔
افغانستان میں امن کا قیام
وقتِ اشاعت : March 27 – 2016