|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2016

محترم محمود خان صاحب چئیرمین ملی عوامی پارٹی: آپ جب بھی بلوچستان کے پشتون علاقوں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہیں تو پشتونوں کے تاریخی ہمسایہ بلوچوں کے خلاف لب کشائی کرنا کیوں ضروری سمجھتے ہیں ؟آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آپ بلوچستان کے حلقہ انتخاب سے منتخب ہوکر اسمبلی پہنچے ہیں۔ آپ کی شناخت بلوچستان سے ہے اس تناظر میں آپ پر اخلاقی طور پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بلا رنگ نسل ساری آبادی کے حقوق کا خیال رکھیں ان کے احساسات کا احترام کریں۔آپ توپاکستان میں بسنے والی چھوٹی اور کمزور قومیتوں کے حقوق کی علمبرداری کے دعوے دار ہیں پھر یہ تعصب کیوں؟سائنس کالج کوئٹہ میں آپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ میں نہیں1907میں انگریز نے کہا ہے کہ کوئٹہ بلوچوں کا نہیں ہے ۔ کیا اس خطے کی تاریخ 1907سے شروع ہوتی ہے؟انگریز جس کے توسیع پسندانہ عزائم وکردار کے باعث تاریخ اسے استعمار کے نام سے یاد کرتی ہے۔آپ انگریز شاطر کی بنائی حدبندیوں پر کس طرح یقین کرتے اور اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ انگریز نے جب اس خطے پر اپنے پنجے گاڑھ دیئے تو کیا وہ جاگیریں ساتھ لائے تھے۔وہ تو آزاد اقوام کی زمینوں ،علاقوں اور وسائل پر غاصبانہ قبضہ اور مقامی آبادی کو اپنا مطیع اور غلام بناکر قوموں کی تاریخی خطوں میں اپنی مرضی کے جغرافیائی تبدیلی لاکر لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالسیی پر گامزن تھے ۔پانچ سو سال قبل افریقہ ایک تھاانہی سامراجی طاقتوں نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تکمیل کے لئے افریقہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا ۔آپ کن بنیادوں پر انگریز استعمار کا حوالہ دیتے ہیں اس خطے کی اپنی تاریخ کیا کہتی ہے۔آپ اپنے ہی خطے کی جغرافیہ اور تاریخ سے نہ بلد ہیں تو اس میں بیچارے بلوچ کاکیاقصور۔ ڈیورنڈلائن کی لکیربلوچوں نے نہیں انگریز استعمار نے کھینچی تھی اس پر تو آپ خاموش ہیں ۔اسی اجتماع میں آپ نے استعماری زبان استعمال کرتے ہوئے بلوچوں کو بلوچ اور براہوئی کے نام سے تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آپ کے ان جملوں سے لاکھوں بلوچوں کی دل آزاری ہوئی ہے بلوچوں نے کبھی پشتون ،پختون اور پٹھان کہہ کر پشتون کوتقسیم کرنے کی بات نہیں کی ہے۔بلوچ تو پشتون کو ایک ہی قوم یعنی اوغان پکارتی ہے حتیٰ کہ ہمارے خواتین بھی اوغان کہتی ہیں ۔اسی نشست میں آپ نے فرضی اعداد شمار پیش کرتے ہوئے یہ مفروضہ گھڑ لیا کہ بلوچستان میں پشتون کی آبادی پچاس فیصد ہے ،بلوچ کی آبادی پینتالیس اور دیگر پانچ فیصد ہے یہ توپشتون قوم کا بلوچ قوم پر بالادستی حاصل کرنے کا استعماری خواب ہے ۔ 2دسمبر 2005کو کوئٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ہماری باچا خان اور بلوچ لیڈرشپ کے ساتھ اس لیے راہیں جدا ہوئیں کیونکہ ہماری سرزمین( جنوبی پشتونخواہ)کا انتقال کسی اور کے نام منتقل کیا جارہا تھا ان رہنماؤں نے وہ وعدہ نہیں نبھایاجن کا ہم نے مل کر نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فار م سے کیا تھااور بلوچ قیادت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔آپ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ 1958میں ایک پشتون فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ایوب خان نے صوبوں پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لیے پاکستان میں مارشل لاء لگا کر ون یونٹ کا نظام نافذکیا پھر عوامی تحریک کے نتیجے میں دوسرے فوجی ڈکٹیٹر نے ون یونٹ تھوڑ کر اپنی مرضی کے صوبے بحال کر دیئے۔بلوچ قیادت صوبوں کی ان حدبندیوں سے مطمئن نہیں تھی اس لیے نیشنل عوامی پارٹی کے منشور میں صوبوں کی ازسرنو قومی،ثقافتی،لسانی ،تہذیبی،تمدنی ، تاریخی اور جغرافیائی تشکیل کا شق شامل کیا گیا ۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد اور عوامی سطح پر تحریک چلانے کی ضرورت تھی۔صمد خان (مرحوم )تو مرکز کے حامی تھے اسی مصلحت کے تحت تو صمد خان نے مرحوم خان عبدالولی خان اورتحریک کے بلوچ ساتھیوں سے اپنی راہیں جُدا کرکے ان قوتوں کے باقیات کے ہمنوابن گئے جن قوتوں نے پاکستان میں ون یونٹ لگایا تھا۔اب آپ کمزور بلوچوں پر آنکھیں نکال کر فرماتے ہیں کہ جنوبی پشتونخواہ کا انتقال قبول نہیں ہم واپس لے کر دکھائیں گے۔ جناب محمود خان صاحب آپ لاہور جاکر مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر یہ آنکھیں اپنے وڈے بھائی کو دکھائیں جس نے بزور شمشیر پاکستان میں آباد چھوٹی اور کمزور قوموں کے سرزمین اور وسائل پر بلا شرکت غیرے اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں۔ ٓآپ نے درست فرمایا ہے کہ اپنا حق چھوڑنا بے غیرتی ہے لیکن حق حاصل کرنے کے لیے باغیرت بن کرسیاسی ومعاشی مراعات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ،چلہ کاٹنا پڑتا ہے اورانگلیاں کٹوانی پڑتی ہیں۔ آپ نے وزیراعلٰی کے عہدے کے لیے باری کی بات کرکے اپنے والد محترم صمد خان اچکزئی مرحوم کے اس مطالبے کو دہرایا ہے جب صمد خان نے 29مئی1973میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پشتونوں کو مطمئن کرنا ہے تو مجھے بلوچستان کا گورنر یا وزیراعلٰی کا عہدہ دیا جائے یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔آپ کے ساتھ ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ آپ خود اپنے موقف کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہیں کبھی بولان تاچترال،کبھی دریائے آمو سے دریا ئے سندھ کی بات کرتے ہیں کبھی افغانیہ صوبہ کبھی برٹش بلوچستان مانگتے ہیں کبھی گریٹر پشتونستان کبھی دو قومی صوبہ اور برابری کی بات کرتے ہیں اور کبھی وریر اعلیٰ کے لیے باری باری کی بات کرتے ہیں۔اپنی کنفیوژن دور کرنے کے لیے مراعات ،وزارت اعلیٰ اور آسودگی کی غلامی کا راستہ اپنائیں یا چلہ کاٹنے کے کھٹن راستے کا انتخاب کریں کیونکہ قوموں کی رہنمائی بچوں کا کھیل نہیں یہ سنجیدہ سیاست کی متقاضی ہے۔اللہ آپکی رہنمائی فرمائے (آمین)