صحافت جنکا اوڑھنا بچھونا ،قیادت میں اور قیا دت کے چنائو میں خود پسند ہو نا ،سچائی کی تلاش میں سر گرداں رہنا ،عقیدت و احترام کے لین دین میں راسخ ہو نا، بد فعل و بد مزاج عنا صر کے لئے چیلنج بننا ،پسے ہو ئے عوام کی خد مت میں پیش پیش رہنا ،
محکوم اقوام کے استحصا ل میںملو ث افراد و نظام کے خلاف آواز بلند کرنا یہ ہیں لا لہ صد یق بلوچ جو زند گی بھر ان خو بیوں کو ساتھ لے کر چلتے رہے علم کو ہتھیا ر بنا کر ڈٹے رہے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کام کر نے کے لئے کرائم رپو رٹنگ سے پہلے پہل وابستہ ہو ئے ملک کے معتدد اخبار ڈان سے منسلک ہو نے اور بعد میں اپنے اخبارات سند ھ ایکسپر یس ،بلو چستان ایکسپر یس اور آزادی تک پا ئے استقلا ل کے ساتھ جم کر لکھتے رہے نوجوانوں کی کردارسازی کر تے رہے ایک قابل اعتبار صحافی کے طورپر نامور رہے ۔صحا فت سے وابستہ رہنا یا اپنے صحا فتی ادارے کی داغ بیل ڈالنا اس ملک میں کو ئی آسان کام نہیں خاص طور پر صدیق بلوچ جیسے ایک سنجیدہ صحا فی کے لئے حالا نکہ کا روباری ذہن رکھنے والے اخباری مالکا ن ہمیشہ مزے لو ٹتے رہے ہیں
جبکہ کا رکن صحا فی ان نا خواندہ ،غیر صحا فیانہ مزاج رکھنے والے اخباری مالکان کیلئے ہمیشہ سولی پر چٹر ھتے رہے ہیںسونے کی چڑیا ثابت ہو تے رہے ہیں صد یق بلوچ اکثر ایسے اخباری مالکان کا ذکر کر تے تھے جن کی وجہ سے میڈیا ہا ئو سز بدنامی کا با عث بنتے رہے ہیں ۔
یا ان لفا فہ جر نلزم میں شامل صحا فی جن کی وجہ سے آج صحا فت اور میڈ یا تنزلی کا با عث ہے ۔ان تمام خرابیوں کے باوجو د نہ صرف صد یق بلوچ اپنے نظریہ اور جذبات کے ساتھ ثابت قدم رہے بلکہ انکے سند ھ (کراچی )اور بلو چستان میں شا گرد اور دوستوں کا حلقہ ہمیشہ نیک نامی کما تا رہاہے انہوں نے خا ندانی پیشے کے طور پر نہیں بلکہ ایک مشن کے طور پر خاندان کے نوجوانوں کو صحافت کی ذمہ داری سو نپی ہے آج ان کے خاندان کے درجنوں نوجواں مختلف اخبارات اور میڈیا یا ئو سز سے وابستہ ہیں ۔
باقی جنکی سیا سی طور پر تر بیت کی وہ بھی عز م و ہمت کے ساتھ جمہور ی سیا ست کو پر وان چڑھا رہے ہیں ۔صد یق بلوچ نے طلبا ء کی تعلیم کے حوالے سے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ مختلف مضا مین میں بھی رہنمائی کر تے رہے خواتین کی تعلیم میں دلچسپی پر انکی قد م قد م پر پذیرائی کی ۔کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے نوجو انوں کو سہو لیا ت فراہم کیں ۔
ملک کے نظر یا تی رہنما ئوں کے ساتھ سنگتی کی جیل کی مصیبتیںکا ٹیں وہ سندھ و بلو چستان کے نامور صحا فی ہو نے کے ساتھ ساتھ بہترین انسان دوستوں کے صف میں شما ر کئے جا تے تھے ۔جتنے شا گرد انکے سند ھ میں ہیں ان سے کہیں زیا دہ بلوچستان میں ہیں بلو چ اور بلوچستان کا مقدمہ لڑ نے کے لئے
انہوں نے ہمیشہ کے لئے کو ئٹہ میں ڈیرہ ڈالا اور مر تے دم تک کو ئٹہ میں صحا فتی سر گر میوں میں خوب اپنا حصہ ڈالتے رہے ۔اہل بلو چستان و پاکستان کو دو معتبر اخبار تحفے میں دیئے یعنی آزادی اور بلو چستان ایکسپر یس وہ پاکستان کے اہم سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر جا نے جا تے تھے سند ھ و بلوچستان میں صحا فتی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز رہے
جبھی تو ان کی خدمات کے پیش نظر سند ھ حکو مت نے لیا ری میں ایک مڈل سکول اور بلو چستان میں حکومت بلو چستان نے صد یق بلو چ میڈ یا اکیڈ یمی کے قیام کا اعلا ن کیا ہے جنھیں سند ھ اور بلو چستان کے صحا فتی حلقوں میں ایک اعزاز سمجھا جا رہاہے کیو نکہ اس سے قبل صحا فت کے میدان میں کسی کو سر کاری و سما جی سطح پر ایسی پذایرئی نہیں ملی ہے صدیق بلوچ میڈ یا اکیڈیمی سے بلو چستان میں نوجوان صحا فیوں کی علمی استعداد میں اضا فہ ہو گا ااس میں صحا فتی میوزیم کے قیام سے بلو چستان کی صحا فتی تاریخ و شخصیا ت کی خد ما ت کو محفو ظ بنانے نئی نسل کو آگا ہی کے علا وہ جر نلز م کے طلبا ء کی علمی استعداد میں اضا فہ بھی ہو گا ۔ صد یق بلو چ نہ صرف صحا فتی حلقوں میں بلکہ سیا سی حلقوں میں بھی اہم مقام رکھتے تھے ان سے عقیدت ان کی بے لو ث خدمات کا نتیجہ ہے ۔
اعصابی طور پر انکی مضبو طی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کینسر جیسے مو ذی مر ض کے باوجو د ایک دن کیلئے بھی اپنا کام نہیں چھوڑا بیک وقت اردواور انگریزی اداریے یامقا لہ خصو صی اور اپنے تجزیے لکھتے رہے ملک سے باہر کسی ہسپتال میں ہو نے کے باوجو د وہ لیپ ٹا پ پر اپنا کا م کر تے رہے
۔صد یق بلو چ سے محکمہ اطلاعات میں ہو نے کی وجہ سے اکثر ملا قا ت رہتی تھی انہیں ہمیشہ اہل بلو چستان کی محر ومیوں پر فکر مند دیکھا وہ ماضی کے حکمرانوں سے ہمیشہ نالا ں رہے ۔
وہ کہتے تھے کہ اگر پاکستان بننے کے بعد حکمران پے درپے غلطیاں نہ کر تے تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑ تے جب خرابیا ں زیا دہ ہوں تو جڑ پکڑ تی جاتی ہیں
اب ان خر ابیوں کو جڑوں سے کا ٹنے کے لئے سب سے پہلے روسا و سامراجی طبقہ کو نہ صرف اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا بلکہ قربانی بھی دینی ہو گی اگر ایسا نہ ہو گا
تو ملک کو اس دلدل سے نکا لنا نا ممکن ہے وہ ماضی کے مخلص رہنما ئوں جیسے جذبوں کے مالک رہنما ئوں کے بھی متلا شی تھے بہر حال وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے
کہ عالمی سامراج خطے میں تبدیلیوں کے خواہاں ہے لیکن کسی بھی تبدیلی کیلئے قوم کو علمی استعداد بڑھانا ہو گا یکجہتی اور بھا ئی چارے کا عملی طور پر اظہار کو یقینی بنانا ہو گا منا فقت کی سیا ست سے با ز رہنا پڑ ے گا خاص طور پر بلو چوں کو آپسی اختلاف چھو ڑنے ہوں گے اور استحصالی طبقے کو مزید مظالم سے روکنا ہو گا
یہ مضمون اس سے قبل بھی شائع ہوچکاہے، آج بلوچستان کے ممتاز صحافی، مصنف اور روزنامہ آزادی کوئٹہ اور بلوچستان ایکسپریس کے مدیر صدیق بلوچ کے 6ویں برسی کے حوالے سے دوبار ہ شائع کی جارہی ہے۔ ۔