|

وقتِ اشاعت :   April 2 – 2016

بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی میں ایک بڑا جلسہ کرکے حلقوں کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ انکی جماعت بلوچستان میں ایک منظم سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے۔ گو کہ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے انکی جماعت کے اہم رکن اور دیرینہ ساتھی وزیر خان رند چند ماہ قبل بی این پی سے مستعفی ہو کر نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ بی این پی مینگل کے جلسے سے پہلے نیشنل پارٹی نے بھی جلسہ کرکے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا تھالیکن بی این پی مینگل کے جلسے کو ایک بڑا جلسہ تصور کیا جا رہا ہے۔یہ دونوں جماعتیں یہاں کافی عرصے سے فعال ہیں لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود لسبیلہ سے جام فیملی اور بھوتانی برادران کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے دونوں جماعتوں نے جلسے کے لئے حب کا انتخاب کیا ہے۔ یہی سوال میں نے حب کے سینیئر صحافی عزیز لاسی سے کیا تو انکا کہنا تھا ’’ حب کا انتخاب اسلئے کیا جاتا ہے ایک تو یہاں افرادی قوت کو جمع کرانا آسان ہے دوسرا یہ کہ یہاں پاکستان کے طول و عرض سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں ‘‘۔ تو کیا دونوں جماعتوں کو یہاں کی مضبوط جماعتیں تصور کرسکتے ہیں تو انکا جواب نہیں میں تھا۔انکا کہنا ہے کہ یہاں کے عوام ایک الگ سوچ رکھتے ہیں اور انکی سوچ پر دونوں شخصیات کی سوچ غالب ہے۔ ماہرین کی جانب سے یہی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حالیہ جلسے جلوس 2018کے الیکشن کی تیاریوں کا حصہ ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ بی این پی مینگل برسراقتدار آئے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اسکی پارٹی صوبائی کی دو جبکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ پھر یہی خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ سردار اختر مینگل اسمبلی میں اہم اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کریں گے کیونکہ صوبائی اسمبلی کی موجودہ اپوزیشن لیڈر کا کردار خاص نہیں رہا۔ البتہ سردار صاحب نے اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا تو کیا موجودہ جلسے جلوس آنے والے وقتوں میں الیکشن کے لئے کارگر ثابت ہو سکتے ہیں اور کیا انکی جماعت آنے والے الیکشن میں ایک مضبوط جماعت کے طور پر سامنے آئے گی؟ یہی سوال میں نے فری لانس صحافی کیّا بلوچ کے سامنے رکھا ’’ ہاں مینگل پارٹی کے چانسز ہیں اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات استوار کرے۔ جب تک وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرینگے چاہے وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اسکے آگے آنے کے چانسز کم ہیں جیسا کہ انکے ساتھ 2013کے الیکشن میں ہوا‘‘۔ اگر دیکھا جائے تو ماضی کی نسبت اس وقت بی این پی مینگل کے لئے بڑی حد حالات سازگار ہیں جو آنے والے الیکشن میں انکی کامیابی کی ضمانت دے سکتے ہیں بہر کیف تو بی این پی مینگل نے بڑی حد تک اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائی ہے اور حق خود ارادیت کے معاملے کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ابھی اسکا پورا فوکس گوادر اور افغان مہاجرین کی واپسی پر ہے۔ گوادر کے مسئلے پر بی این پی کی جانب سے اسلام آباد میں آل پارٹیزکانفرنس کا بلایا جانا اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت اور اپنا مؤقف رکھنا اس پارٹی کی ایک بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ بلوچستان کے حالات میں اب قدرے بہتری کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ 10سالہ شورش میں اب کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اب زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی نظریں اگلی الیکشن پر لگی ہوئی ہیں۔ سابقہ الیکشن سے پہلے یہی خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کے درمیان سیاسی اتحاد قائم ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں برسراقتدار آئیں گی۔ عین الیکشن کے موقع پر دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی راہیں ایک دوسرے سے الگ کر لیں جسکا خمیازہ دونوں پارٹیوں کو اٹھانا پڑا۔ کوئٹہ اور نوشکی کی وہ نشستیں جو بلوچ پارٹیاں جیتی چلی آرہی تھیں وہ پشتونوں کے حصے میں چلے گئے۔ دیکھنا ہے آنے والے الیکشن میں کونسی پارٹی کس کے ساتھ سیاسی اتحاد کرلے گی البتہ ایک اور سیاسی جماعت بی این پی عوامی نے فی الوقت چپ سادھ لی ہے اور امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی کے درمیان سیاسی گٹ جوڑ ہو جائے گی۔ بی این پی عوامی بی این پی سے علیحدہ ہو کر ایک جماعت کی صورت میں سامنے آگئی تھی اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر وہ ایک دوسرے کو کس طرح گلے لگائیں گے یہ ایک الگ موضوع ہے ۔بی این پی مینگل کے پاس صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں ہونے کے باوجود اس جماعت نے اسمبلی کا رخ نہیں کیا جس فلور پر عوامی مسائل کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے تو کیا آنے والی الیکشن مہم میں اس جماعت سے عوام کی جانب سے سوال نہیں کیا جا ئیگا؟ یہی سوال میں نے کالم نگار امان اللہ شادیزئی سے پوچھا ’’ بالکل یہ سوال تو ضرور پوچھا جائے گا کیونکہ پچھلی دفعہ بھی وہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہوئے تھے اور آنے والے وقتوں میں انہیں دوبارہ اسی عوام کے پاس جانا پڑے گا تو یقیناًانکے پاس اسکا کوئی جواب نہیں ہے۔ دوسری طرف نیشنل پارٹی نے حکومت میں رہتے ہوئے مکران کے دورے کئے سیاسی جلسے کئے تو یقیناًانکے لئے پلس پوائنٹ ہو سکتی ہے‘‘۔ نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ن اور پشتونخواہ میپ کی اشتراک سے 2013 میں حکومت قائم کی گئی اور یہ حکومت ایک میثاق ’’ میثاقِ مری‘‘ کے تحت عمل میں لائی گئی جو توقعات اس حکومت سے وابستہ کئے گئے وہ اس پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ پارٹی کے بیشتر کارکن خائف نظر آئے اور پارٹی کے بانی ڈاکٹر عبدالحئی کی قیادت میں ایک نظریاتی گروپ نے جنم لیا۔پارٹی کے ناراض گروپ کا کہنا ہے کہ جماعت کی جانب سے حقیقی ساتھیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ اگر دیکھا بھی جائے تو ڈاکٹر مالک بلوچ اور اسکے دوستوں نے ماضی میں سرداری اور وڈیرہ شاہی نظام کے خلاف آواز اٹھائی تھی خودانکی جماعت کے منتخب نمائندوں میں اکثریت ہی سردار ، نواب اور وڈیروں پر مشتمل ہے یعنی اب نظریات کا بھی وہ عنصر نہیں رہا۔ کیا بلوچستان میں ایسا ممکن ہے کہ یک جماعتی نمائندہ جماعت برسراقتدار آئے یہی سوال صحافی محمد اکبر نوتیزئی سے کیا ’’ بلوچستان میں ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ آپ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کا جائزہ لیں تو وہ تھی تو مضبوط لیکن وہ بھی چند مہینوں تک رہی۔ بلوچستان میں اگر اگلی حکومت بنے گی تو وہ بھی کولیشن گورنمنٹ ہوگی اور یہی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بی این پی مینگل کی جیتنے کے چانسز ہیں اگر وہ گوادر اور دیگر معاملات میں کمپرومائز کرے‘‘۔ بلوچستان میں مزاحمتی تنظیمیں پارلیمانی نظام کی سخت مخالف رہی ہیں انکی جانب سے نہ صرف الیکشن کا بائیکاٹ کیاجا چکا ہے بلکہ الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں کو نشانہ بنا یا جا چکا ہے۔ 2013کا الیکشن مکران میں کھٹن حالات میں کرائے گئے جس میں ووٹ نہ ہونے کے برابر کاسٹ ہوئے۔ سب سے کم وو ٹ شورش زدہ ضلع آواران میں کاسٹ ہوئے 425 ووٹ لینے والے امیدوار نے نہ صرف کامیابی حاصل کرلی بلکہ ڈھائی سال تک ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر بھی براجمان رہے۔ 2018کا الیکشن کس حد تک پرامن رہے گا۔ لوگوں کو سیاسی جلسے جلوسوں کی کس حد تک آزادی ہوگی یہ آنے ولا وقت بتائے گا۔