|

وقتِ اشاعت :   February 12 – 2024

بلوچستان سمیت ملک بھر میں لاپتہ افراد کے بعد عوامی مینڈیٹ کوبھی لاپتہ کردیا گیا۔

نتائج راتوں رات تبدیل کرکے نامعلوم افراد نے غیر سیاسی لوگوں کو منتخب کروایا جس سے ملک میں غیر منتخب افراد پرمشتمل غیر مستحکم حکومتیں بنیں گی جس سے ملک میں جاری معاشی اور سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ مہنگائی کا طوفان برپا ہوگا۔ غریب عوام کی قوت خرید ختم ہوگی۔


انتخابی دھاندلی سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا گیا۔

اب پارلیمانی سیاست پر عوام کا مکمل اعتماد ختم ہوجائیگا۔ بڑی بڑی سیاسی جاعتوں کی روایتی قیادت اپنی عوامی مقبولیت کھو چکی ہے۔ عام انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اب صنعت کار اور فیوڈل کلاس کی جگہ مڈل کلاس لیڈرشپ نے لے لی۔

وہ الگ بات ہے کہ ان کے مینڈیٹ کو چرایا گیا تاہم عوام میں ایک انقلابی سوچ بیدار ہوگئی ہے۔

اس سوچ کو کوئی بھی نہیں چرا سکتا ۔ اب یہ سوچ گن پوائنٹ پر بننے والی حکومت کو لے ڈوبے گی۔
بلوچستان کے عوام پہلے سے ہی پارلیمانی سیاست سے بیزاری کا اظہار کرچکے ہیں جس کی وجہ سے حالیہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ تین سے چار فیصد رہی۔ تاہم جتنے بھی ووٹ کاسٹ ہوئے انہیں بھی تبدیل کردیا گیا جس کی وجہ سے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں احتجاج جاری ہے۔

لورالائی میں کوئٹہ چمن شاہراہ ،کوئٹہ ڈی جی خان روڈ، کوئٹہ سبی مچھ، کولپور، تربت روڈ، پسنی میں زیرو پوائنٹ کے مقام پر شاہراہیں بند کردی گئیں جبکہ کوئٹہ میں مشرقی بائی پاس، مغربی بائی پاس، امداد چوک، گوالمنڈی چوک، جی پی او چوک، اسپینی روڈ،بروری روڈپر مختلف جماعتوں کی جانب سے احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کئے گئے۔


حلقہ این اے 259 کے نتائج کی تبدیلی اور پیپلز پارٹی کے گوادر کم کیچ سے امیدوار ملک شاہ گورگیج کی کامیابی کے خلاف حق دو تحریک اور نیشنل پارٹی کے رہنما میدان میں آگئے۔گوادر میں حق دو تحریک نے میرین ڈرائیو پر دھرنا دیا۔ احتجاج میں خواتین کی بڑی تعداد شریک رہی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ حق دو تحریک کے این اے 259 کے نامزد امیدوار کامریڈ حسین واڈیلہ ایم این اے کی سیٹ جیت چکے تھے۔ ان پولنگ اسٹیشنوں پر عوام کا رش رہا اور عوام نے حق دو تحریک کے امیدواروں کو کامیابی بخشی تھی لیکن رہزنوں اور ماہر چوروں نے ان پولنگ اسٹیشنوں پر ہزاروں جعلی ووٹ کاسٹ کیے تھے

۔ جس کی وجہ سے ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کردیاگیا۔
دوسری جانب ضلع کیچ کے تین انتخابی حلقوں سمیت قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں ہونے والی دھاندلی اور نتائج کی تبدیلی کے خلاف نیشنل پارٹی کی کال پر تربت میں ریلی نکال کر ڈی آر او آفس کے سامنے دھرنا دیا گیا۔احتجاج کی قیادت نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کررہے تھے۔

احتجاج کے دوران نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور پی بی 25 کیچ 1 کے امیدوار جان بلیدی نے کہا کہ ایک عسکری ادارہ کے افسر نے ساز باز کرکے مافیا کے ساتھ مل کر عوامی رائے پر ڈاکہ ڈالا، اور اسی افسر نے انہیں رات کو فون کرکے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے مگر نیشنل پارٹی کسی دباؤ اور دھمکی میں نہیں آئیگی۔
نیشنل پارٹی اور حق دو تحریک نے پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار ملک شاہ گورگیج کی جیت کو فریب اور دھوکہ قراردیتے ہوئے کہا کہ ان کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا گیا۔

ملک شاہ کو زبردستی جتوایا گیا اور یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ملک شاہ کی شہریت بھی نامعلوم ہے۔ ان کا تعلق افغانستان کے صوبہ نمروز سے ہے۔ انہیں زبردستی لاکر مکران کی عوام پر مسلط کیا گیا۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ ان کا تعلق ضلع چاغی سے ہے۔

ملک شاہ کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بلوچستان سے نا صرف ملک شاہ گورکیج کو مکران سے بلکہ اس کے بیٹے عبید گورگیج کو کوئٹہ کے حلقہ پی بی 44 سے جبکہ داماد صمد گورگیج کو کوئٹہ کے حلقہ پی بی 40 سے دھاندلی کے ذریعے جتوایا گیا۔

یہ تینوں پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ یہ سوالات کیے جارہے کہ باپ، بیٹے اور داماد کے لئے اتنے ووٹ کہاں سے آئے اس حوالے سے صرف بلوچستان پریشان نہیں بلکہ پوری دنیا پریشان ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پولنگ اسٹییشنزمیں نامعلوم بکسز لائے گئے۔ نامعلوم ووٹ ڈالے گئے۔ یہ سب مہربانی نامعلوم افراد کی ہے۔ یہ افراد اس ملک کے کرتا دھرتا ہیں۔ ان کے پاس جادو کی ایک چھڑی ہے۔ اس چھڑی والے کی تھپکی جس کی پیٹھ پر پڑجائے اس کی لاٹری لگ جائیگی۔ آج شاید ملک شاہ گورکیج کی فیملی کی لاٹری لگ گئی ہے۔ ہر طرف ان کی ہار کو جیت میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
بلوچستان گرینڈ الائنس کے سربراہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ کوئٹہ سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 44 سے منتخب امیدوار عبید گورگیج پر غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں۔ وہ پاکستانی شہری نہیںہیں۔ ان کا تعلق افغانستان کے صوبہ نمروز سے ہے۔ان مزید کہنا تھا کہ جعلی الیکشن نہیں مانیں گے،

ریاست کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا گیاہے
پی بی 12 سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار سردار یار محمد رند نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو ایک ماہ رنگ بلوچ اسلام آباد گئی تھی اب بلوچ کے ہر گھر میں ماہ رنگ پیدا ہوگی۔ الیکشن میں عوام نے ہمیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے لیکن ریاستی اداروں نے ہمارے مینڈیٹ کو چوری کیا ہے۔
یہ بڑی بات ہے کہ بلوچستان کے طاقتور ترین سردار بھی بلوچ خواتین کی طاقت کو تسلیم کررہے ہیں۔

یہ ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ واضح رہے کہ آج سے کچھ سال قبل یہی سردار یار محمد رند جب بلوچستان میں صوبائی وزیر تھے۔ تو اس دوران ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر طلبہ و طالبات پر تشدد ہوا جس پر سردار یار محمد کہنا تھا کہ عورتوں کو احتجاج نہیں کرنا چاہیے بلکہ گھروں میں رہنا چاہیئے۔

عورتیں کیوں احتجاج کرتی ہیں؟۔ لیکن آج یہی سردار بلوچ خواتین پر فخر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اور ان عورتوں کی بہادری کی مثالیں دیتے ہیں۔
بالآخر گوادر سے حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوگئے۔

مولانا صاحب ایک غریب ماہی گیر کا بیٹا ہے۔ انہوں نے مکران کے ڈرگ مافیا، ٹرالر مافیا اور لینڈ مافیا کا مقابلہ کیا۔ امید ہے کہ وہ اسمبلی میں بلوچستان کے ساحل و وسائل پر بلوچ قوم کی حکمرانی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے مضبوط آواز اٹھائیں گے۔
ملک میں ہونے والے انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی کہیں مثال نہیں ملتی۔

جب انتخابی نتائج آرہے تھے تو الیکشن کمیشن خود انتخابی نتائج کا انتظار کررہی تھی تاکہ وہ کامیابی کا نوٹیفیکشن جاری کرسکے مگر اس ملک کی اصل قوتوںکو کچھ او ر ہی منظور تھا لہذا کہیں جیت ہار میں بدلتی رہی تو کہیںہار میں جیت میں ۔بہرحال بڑی سرکار کو اگر سلیکشن ہی کروانی تھی تو الیکشن کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا؟