بلوچستان میں حالیہ عام انتخابات میں نتائج کی تبدیلیوں کے خلاف بلوچ پارلیمان پسندجماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے احتجاجی مظاہروں میں جتوانے والوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے اس ملک کی پارلیمنٹ میں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہیں پارلیمانی جدوجہد سے مسلح جدوجہد اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یعنی وہ “سرمچار” بن جائیں گے۔ “سرمچار” ایک بلوچی لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے سر(جان) کی پرواہ نہ کرنے والا یعنی سر دھڑ کی بازی لگانے والا ۔ اگر ہم اس کو “سرفروش” کہہ دیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں آزادی پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کو سرمچار کہتے ہیں۔ پارلیمان پسند رہنماؤں کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرمچار بہادری کی ایک علامت بن چکے ہیں۔
اس حوالے سے امریکہ میں مقیم، پنجگور سے تعلق رکھنے والے اینکرپرسن، شمس الدین شمس کے ایک ٹالک شو کے دوران بلوچ دانشور، صحافی اور مصنف انور ساجدی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ اور دیگر پارلیمان پسند سیاست دان کبھی بھی سرمچار نہیں بن سکتے ، اگر وہ مزاحمتی تحریک کا حصہ بن کر بلوچستان کی پہاڑوںپر چلے گئے تو وہ خود بھی (ساجدی صاحب )ان کے ساتھ پہاڑوں پر چلے جائیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو ساجدی صاحب صحیح کہہ رہے ہیں۔ ویسے تو ان سیاستدانوں کا پہاڑوںپر جانا ممکن نہیں ہے اگر وہ پہاڑوں پر چلے بھی گئے تو ساجدی صاحب اپنے بلوچی وعدے کو ضرور پورا کریں گے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو میرا (راقم ) بھی یہ بلوچی وعدہ ہے کہ میں روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے ایڈیٹر انچیف عارف بلوچ کو ساجدی صاحب کے ہمراہ پہاڑوں کی طرف بھیج دونگا۔ تاہم میں خود سرمچار نہیں بن سکتا کیونکہ میں ایک ڈرپوک انسان ہوں۔میں روزنامہ آزادی کے ایڈیٹر آصف بلوچ اور صحافی اور اینکرپرسن شاہد رند کی طرح کا انسان ہوں۔ دونوں طرف چلنے والا انسان ہوں۔ آصف بلوچ منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ اسی طرح شاہد رند صاحب بھی کسی کو ناراض نہیں کرتے۔ جب نیشنل پارٹی کی حکومت تھی تو ان کیساتھ بھی اچھی تعلق داری تھی۔ اور آج کل نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے اچھی یاری اور دوستی ہے۔ تاہم کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی ایک نڈر صحافی ہیں۔ جب اسلام آباد میں بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء پر لاٹھی چارج ہوا تو سربازی صاحب نے بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی سے اپنی دوستی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اسی طرح معروف و نامور شاعر اور سابق کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی ایک منفرد شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ جب اسلام آباد میں بلوچ خواتین پر لاٹھی چارج ہوا تو فاضل صاحب نے بلوچ خواتین کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی جدوجہد اور ہمت پر ایک نظم لکھ دی۔ فاضل صاحب اور ارباب چانڈیو دو ایسے درویش صفت انسان ہیںجن کا دسترخوان شام سے رات دیر تک کراچی پریس کلب میں لگارہتا ہے۔ اور ان کے دسترخوان کو “توشہ خانہ ” بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں ہماری طرح کے بے شمار غریبوں کو بہت کچھ پیش کیا جاتا ہے۔اس تناضر میں اگر ہم وفاقی اردو یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن کے سابق سربراہ پروفیسر توصیف احمد خان کی بات نہ کریں تو ان کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی۔ وہ نیشنل پارٹی کی سیاست کے حامی ہیں۔ لیکن آج کل وہ ڈاکٹرمالک بلوچ سے کافی ناراض بھی ہیں۔ دراصل اس ناراضگی کی بنیاد میں (راقم) ہوں۔ جب میری دوسری کتاب “آشوب بلوچستان” کی تقریب کراچی پریس کلب میں رکھنے کی تیاری ہورہی تھی۔ واضح رہے کہ کتاب کی تقریب کے منتظم پروفیسر توصیف احمد صاحب خود تھے۔ ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر مالک بلوچ کو تقریب کے مہمان خصوصی کے طورپرمدعو کریں اور انہوں نے ڈاکٹر مالک کو فون کرکے ان کی مرضی کی تاریخ بھی طے کرلی۔ تاہم ڈاکٹر مالک نے عین وقت پرشرکت کرنے سے معذرت کرلی۔ جہاں سے ان کے اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوگئی۔ میرا ذاتی خیال ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے۔ پروفیسر صاحب کا تعلق “رند” بلوچ قبیلے سے ہے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق میرچاکر خان رند کے نسل سے ہے۔جنہوں نے شیرشاہ سوری کو شکست دے کر دہلی کا تخت دوبارہ مغل حکمرانوں کو واپس کردیا تھا۔ پروفیسر توصیف صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر مالک “رند” بلوچ ہیں۔ جو ان کے رشتہ دار ہیں۔ میں کئی دفعہ پروفیسر صاحب کو یہ کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں کہ ڈاکٹر مالک نہ رند بلوچ ہیں اور نہ ہی “رئیس” قبیلے سے ان کا تعلق ہے بلکہ ان کے آباؤ اجداد قلات کے علاقے منگچر سے ہجرت کرکے مکران آئے تھے۔ وہ بہت پڑھے لکھے تھے۔ وہ مکران ریاست کی عدالتی نظام سے منسلک ہوئے۔ وہ قاضی عدالتوں میں قاضی (جج) ہوا کرتے تھے۔ ان کے خاندان میں قاضی ملا حیردین، قاضی شاہ بیگ، قاضی عبداللہ اور دیگر مشہور و معروف قاضی ہوا کرتے تھے۔ وہ دراصل “لانگو” قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ مکران میں بسنے کے بعد ان کے خاندان نے رند، ہوت اور رئیس فیملیز میں شادیاں کیں اورہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ پہلا بلوچ فدائی، مجید لانگو تھے۔ آزادی پسند تنظیم “مجید بریگیڈ” فدائی مجید لانگو کے نام سے منسوب ہے۔ مجید لانگو نے کوئٹہ میں سابق وزیراعظم زیڈ اے بھٹو کو ایک خودکش حملے میں مارنے کی کوشش کی تھی تاہم اس حملے میں بھٹو محفوظ رہے کیونکہ بھٹو نے بلوچستان کی پہلی جمہوری حکومت کو برطرف کرکے فوجی آپریشن کا اغاز کیا تھا۔ اس لئے بلوچ آج بھی یہ نعرہ لگاتا ہے کہ “کل بھی بھٹو قاتل تھا آج بھی بھٹو قاتل ہے”۔
لانگو ایک بہادر بلوچ نسل ہے۔ اب انور ساجدی صاحب کو اپنے بلوچی قول کو واپس لینا چاہیئے کیونکہ ڈاکٹر مالک بلوچ ایک بہادر نسل یعنی “لانگو” سے ہے۔ وہ بلوچستان کے پہاڑوں پرجا بھی سکتا ہے۔
یہاں بات زیڈ اے بھٹو اور پیپلز پارٹی کی آرہی ہے۔ تو ہم تربت پریس کلب کے سرکردہ رہنما پھلان خان اور لال بخش قومی کا ذکر نہ کریں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ اس وقت سب سے بہترین پالیسی ان دونوں نامور صحافیوں کی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کیچ کی رہنما مینا مجید کی سیاست اورصلاحیتوں سے کافی متاثر ہیں۔ اور ان کی سیاست کی منفرد صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ دونوں مینا مجید کو اپنا قومی لیڈر تصورکرتے ہیں۔
میرا لیڈر تو حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ ہیں۔ کیونکہ وہ بھی ماہی گیر کا بیٹا ہے اور میں بھی ماہی گیر کا بیٹا ہوں۔ اس طرح مکران کے اصل وارث ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا اور ٹرالر مافیا نہیں ہیں بلکہ ہم دونوں ہیں۔ مکران ماہی گیروں کی سرزمین ہے۔ مکران کا نام بذات خود “ماہی خور” یعنی مچھلی کھانے والے کے فارسی لفظ سے بنا ہے۔
“سرمچاری” کی سیاست
وقتِ اشاعت : February 16 – 2024