عوام کی طاقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ عوامی طاقت کے سامنے طاقتورآمر ہو، ریاست ہو یا کٹھ پتلی حکومتیں سب ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ جس کی واضح مثال ہمارے سامنے پاکستان میں حالیہ ہونے والے عام انتخابات کے نتائج تھے۔ عوام نے اپنے مینڈیٹ کی طاقت کے ذریعے انقلاب برپا کردیا۔ بڑے سے بڑے طرم خان کو شکست دے دی۔ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس طاقت کے سامنے پوری ریاستی مشینری ڈھیر ہوگئی۔تاہم حکومتی مشینری کی جانب سے شکست خوردہ طرم خانوں کو ریسکیو کرنا پڑا۔ گن پوائنٹ پر انتخابی نتائج کواغوا کیا گیا۔ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا گیا۔ انہیں چْرایا گیا۔ نتائج راتوں رات تبدیل کرنا پڑے۔ شکست خوردہ امیدواروں کی ہار کو جیت میں تبدیل کردیا گیااور انتخابی دھاندلی کی وجہ سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا گیا۔ اب پارلیمانی سیاست پر عوام کا مکمل اعتماد ختم ہوگیا ہے۔
بجائے یہ کہ ملک میں مین اسٹریم پولیٹکس کرنے والی جماعتیں اپنی شکست قبول کرتیں ،وہ ڈھٹائی کے ساتھ فتح کا جشن منا رہی ہیں اور حکومت سازی کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ میرا وزیراعظم آئے گا ،دوسری کا کہنا ہے کہ میرا صدر بنے گا۔ سب ننگے ہوگئے ہیں۔ شرم نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ بجائے یہ کہ سیاسی جرات کا مظاہرہ کرتے اور کہتے کہ ہمیں خیراتی مینڈیٹ قبول نہیں مگر وہ بڑی بے حیائی سے خیراتی مینڈیٹ سے حکومت بنانے کی باتیں اور دعوے کررہی ہیں۔ جس سے ملک میں غیر مستحکم حکومتیں بننے کا خدشہ ہے جس کے بعد سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا۔ عدم استحکام جمہوریت کیلئے ایک زہر قاتل ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہوگی تو نہ عدل ہوگا اورنہ ہی معاشی خوشحالی آسکے گی۔ جس کی وجہ سے ریاستی استحکام نہیں رہے گی۔ انارکی اور افراتفری جیسی صورتحال پیداہوگی۔
گزشتہ ماہ جنوری کے مہینے میں، میں (راقم) نے روزنامہ آزادی میں “سیاسی خودکشی” کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جو آج بھی “گوگل” پر موجود ہے۔ یہ کالم سیاسی جماعتوں کا پولیٹیکل اسٹینڈ نہ ہونے اور سیاست میں مصلحت پرستی کے تناظر میں لکھا گیا تھا۔ جس کا متن کچھ یوں تھا۔
“ملک میں مین اسٹریم پولیٹکس کرنے والی جماعتیں آہستہ آہستہ اپنی سیاسی افادیت اور اہمیت کھو رہی ہیں۔ ان کا پولیٹیکل اسٹینڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ سیاست میں مصلحت پرستی کررہی ہیں۔ عوام کے ان کور ایشوز کو نہیں چھیڑ رہیں جو آئینی و قانونی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی انتشار جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ملک میں ایک افراتفری اور سیاسی بے چینی کا ماحول ہے۔ جس کی ذمہ دار یہی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک میں ایک سیاسی خلا ء پیدا ہوگیا ہے۔ جسے پر کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کی جگہ سول سوسائٹی نے لے لی۔ عوام سڑکوں پر آگئی۔ اور اپنی اپنی تنظیمیں تشکیل دے دیں ہیں۔ اس عمل سے بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تنظیمیں بھی سامنے آئیں۔ اس وقت یہ تنظیم پورے ملک کی عوام کی آواز بن چکی ہے۔ بلوچستان سمیت دیگر چھوٹے صوبوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ جبری گمشدگیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ ہر تیسرا گھر متاثر ہے۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ مکمل آئینی و قانونی ہے۔ آئین و قانون کے تحت انہیں انصاف درکار ہے جو انہیں نہیں مل رہا۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک میں ایک آئینی بحران موجود ہے۔ جو غور طلب ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ملکی آئین یہی کہتا ہے کہ کسی بھی مجرم کو چوبیس گھنٹے میں عدالتوں میں پیش کیا جائے لیکن سیکیورٹی ادارے ان کو عدالتوں میں پیش نہیں کررہے۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتیں جبری گمشدگی جیسے اہم آئینی و قانونی مسئلے پر چشم پوشی اختیار کررہی ہیں۔ شاید یہ سیاسی جماعتیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ان اداروں کی ناراضگی کا مطلب ہے وہ اقتدار حاصل نہیں کرپائیں گی۔ یہ وہی ادارے ہیں جو حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں۔اس ڈرا ور خوف کی وجہ سے ملک میں مصلحت پرستی کی سیاست چل رہی ہے لیکن یہ جماعتیں بھول چکی ہیں کہ مصلحت پرستی کی سیاست کرنے سے جماعتیں مستحکم نہیں ہوتیں۔ سیاسی قیادت کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ انہیں عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ۔اس طرح کی خاموشی سے ملک میں انسانی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جس سے نا صرف ان جماعتوں کی عوامی مقبولیت ختم ہورہی ہے بلکہ ملک میں سیاسی کلچر کا بھی خاتمہ ہورہا ہے جس سے مستقبل میں سیاست میں ایک بھیانک قسم کا عمل شروع ہوگا۔ اورملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگا اور سول نافرمانی کی تحریکیں جنم لیں گی۔
اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو کررہے ہیں۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو نے ملک میں قانونی کی حکمرانی کی جدوجہد کی۔ انہوں نے ہمیشہ جمہوریت کی پاسداری کی۔ آمرانہ سوچ کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کبھی نہیں جھکی۔ وہ ایک عوامی لیڈر تھیں۔ لیکن صد افسوس کہ ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو عوام کو طاقت کا سرچشمہ ماننے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے آج پیپلز پارٹی عوامی پارٹی کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کا بغل بچہ بن چکی ہے۔اسی طرح مسلم لیگ ن بھی جبری گمشدگی پر خاموش تماشائی بن چکی ہے حالانکہ مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں تھی تو مریم نواز نے کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے جلسے میں مدعو کیا تھا اور کہا تھا کہ جبری گمشدگی ماورائے قانون ہے اور جعلی مقابلے ماورائے عدالت قتل۔ مریم نواز نے یقین دہانی کروائی تھی کہ جب ان کی حکومت آئیگی وہ ملکی آئین و قانون کے تحت لاپتہ افراد کے مسائل حل کرینگی۔ جب ان کی جماعت اقتدار میں آئی تو انہوں نے اس اہم انسانی مسئلے کو نظرانداز کردیا۔
سیاسی جماعتوں کی جبری گمشدگی اور سیاسی کارکنوں کے قتل پر خاموشی سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں سیاسی ہمت و جرات نہیں رہی وہ سچ کو سچ بول سکتے ہیں نا ہی جھوٹ کو جھوٹ۔ یہ عمل خود ان کی سیاسی خودکشی ہوگی”۔
مندرجہ بالا کالم گزشتہ ماہ جنوری کو لکھا گیا تھا میں جو نے بھی خدشات کا اظہار کیا وہ ہو بہو آج ثابت ہوگئی ہیں۔ علاوہ ازیں سندھ میں بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کی طرح روز بروز سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ سندھ میں بھی سیاسی کارکنوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ 16 فروری 2024 کو وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی رہنما سورٹھ لوہار اور سسئی لوہار کے والد ہدایت لوہار کو مسلح افراد نے قتل کردیا۔ ان کی بیٹی سسئی لوہار نے نصیرآباد، لاڑکانہ بائی پاس پر اپنے والد ہدایت لوہار کی لاش رکھ کر دھرنا دیا۔ اس قتل کے خلاف سندھ، بلوچستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی ، سماجی، انسانی حقوق اور قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بھرپور ردعمل دیا گیا اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔
واضح رہے کہ ہدایت لوہار 17 اپریل 2017 سے جولائی 2019 تک فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ رہے جس کی آزادی کے لیئے ان کی بیٹی سورٹھ اور سسئی لوہار نے کئی سالوں تک جدوجہد کی تھی۔ ہدایت لوہار پیشے سے ایک استاد تھے اور 1980 کی دِہائی سے جئے سندھ کے ایک سرگرم سیاسی کارکن بھی رہے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان سمیت ملک دیگرکے صوبوں کے حالات بھی روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اب خیراتی مینڈیٹ سے حکومتیں نہیں چلیں گی۔ اگر گن پوائنٹ پر حکومت چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ ایک انقلاب کی جانب پیش قدمی ہوگی۔
خیراتی مینڈیٹ
وقتِ اشاعت : February 18 – 2024