|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2024

سوشل میڈیا پر سردار عبدالرحمن کھیتران کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں الیکشن جیتنے کی خوشی میں وہ دو کلاشنکوف لئے ڈانس کرتے نظر آرہے ہیں۔ بندوق کے زور پر الیکشن جیتنے والا جیتنے پر قلم و کتاب ہاتھ میں تو لہرائے گا نہیں وہ بندوق ہی کو اپنے جیت کا سہرا سمجھتا ہے۔ یہ ان پڑھ سردار لیڈر قلم و کتاب کی طاقت سے زیادہ بندوق کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہی سردار عبدالراحمن کھیتران ہیں جس نے ضلع بارکھان میں ایک خاتون سمیت تین افراد خان محمد مری اور ان کے خاندان کو اپنے نجی جیل میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ عبدالراحمن کھیتران ایک ملزم ہیں جو انڈر ٹرائل ہیں لیکن پھر بھی الیکشن جیت جاتے ہیں۔ کھیتران کا الیکشن جیتنا کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ الیکشن میں اسے کلیئرنس ملنا اس نظام کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ یہاں ظالم کو مکمل چھوٹ حاصل ہے جتنے سر کاٹیں اتنی سیڑھیاں چڑھتے جائیں۔ الیکشن میں دھاندلی کا نعرہ کوئی نیا نہیں ہے جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے لے کر آج تک الیکشن ہیجمہوریت کا جنازہ اٹھاتا رہا ہے۔ بلوچستان میں عوام میں شعوری طور پر پختگی نے بلوچ عوام کو سیاست سے کوسوں دور کردیا ہے اس کی زمہ دار ریاست ہے۔ ریاست اپنی اصلاح کروانے والوں کو مجرم اور دہشت گرد سمجھنے کے بجائے بہتر پالیسی بنانے پر غور کرے اور عوام کو صحیح معنوں میں انسان سمجھے تو کسی حدتک معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان میں ریاست نے الیکشن کے ذریعے اپنے جعلی نمائندے تعینات کرنے کے لیے چنے ہیں۔ حالیہ الیکشن سے کوئی بھی جماعت خوش نہیں ہر کوئی احتجاج پر بیٹھا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو جیسے موروثی سیاستدان دوبارہ الیکشن کرنے کا کہہ رہے ہیں جناب کو یہ نہیں معلوم کہ الیکشن کے لیے جتنے فنڈز چاہییں وہ ناکافی ہیں۔ ریاست اس حالت میں نہیں کہ وہ دوبارہ الیکشن کرائے۔ خیر وہ ایک چہیتا تھا جیسے عوامی طاقت سے ڈھیر ہونا پڑا اب وہ دلبرداشتہ ہیں۔ اس بار کچھ اضلاع میں عوام نے دھاندلی کو ناکام بناکر جدید نیشلزم کو اپنایا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک کے بعد سے بلوچ قوم کا جعلی نمائندوں سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ بلوچوں میں سیاسی بیداری آگئی ہے۔ اب وہ بلوچ فکری تحریک کا حصہ ہیں اور بلوچ جعلی سیاست کو بلوچ کے لیے ناسور سمجھتے ہیں۔ بلوچ فکری تحریک بلوچ حقیقی سیاسی مزاحمت کا حصہ ہے جس نے 23 فروری کو ایک نئے سنہرے باب کا آغاز کردیا۔ ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام سے پھیلنے والا یہ تحریک بلوچ قوم کی آواز بن چکی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے 8 فروری کو الجزیرہ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے متعلق لکھا ہے کہ “ریاست کہتی ہے کہ ہم ریاست کے خلاف ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ ریاست ہمارے خلاف ہے” یعنی جو بلوچ تحریک کے لوگ ہیں وہ پارلیمانی لوگ ہیں وہ سیاسی جدوجہد کررہے ہیں ان سے سیاسی و مذاکراتی ڈیل کرنے کے بجائے ریاست نے مزید جدید نیشنلزم کو فروغ دیا ہے۔ جدید دور میں تحریکیں مین اسٹریم میڈیا کی محتاج نہیں اس لیے میڈیا پر قدغن کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کو بڑی پذیرائی ملی۔