تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جب سے دشمنوں نے ہمارے ملک پر میلی نگاہ ڈالی ہے اور جب سے ہمارے ملک میں ہی کچھ ایسے ضمیر فروش پیدا ہوئے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے وطن عزیز کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار بیٹھے ہیں اس وقت سے عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف حکومتوں کی جانب سے ایک ایسی سکیم عمل میں لائی گئی ہے جس کا نام تحقیقاتی کمیشن رکھا گیا ہے۔ پھر ان کمیشنز کا طریقہ کارجسے طریقہ واردات کہنے میں کچھ مضائقہ نہیں یہ تھا کہ وہ بعض اوقات بڑے بڑے ہاٹ ایشوز سامنے لائے اور ان کو آن بھی رکھا مگرمحض اس وقت تک کہ اپنا کام نکال لیا گیا یا پھر اپنی جیب گرم کرلی گئی اور اس کے بعد نہ تو وہ ہاٹ ایشوز ایشوز رہتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی نتیجہ عوام الناس کے آگے رکھا جاتا ہے بلکہ اسکے برعکس وہ واقعہ یا ایشو ہی منصہ شہود سے غائب ہو جاتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے یہ تحقیقاتی ادارے ایسے لوگوں کے ذریعے سرگرم عمل ہیں جو یا تو ان محکمہ جات میں (Deputation)پر آئے ہوئے ہیں یا پھر وہ خود سیاسی کالی بھیڑوں کے ایسے آلہ کار ہوتے ہیں جو محض ومحض اپنی ذاتی اغراض،نفسانی خواہشات اور دنیاوی مقاصد کے لیے شرفاء کو تنگ کرنے کے لیے یا پھر امراء کی جیبیں خالی کرنے کے لیے ایسے کیسز سامنے لاتے ہیں جن کی وجہ سے اب تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں بڑے بڑے چور ہی شور مچاتے ہیں کہ کسی طرح دنیا کو بیوقوف بنایا جاسکے اور دنیا میں اپنا الو تو سیدھا رہے مگر دوسروں کو تکلیف دے کر ذاتی فوائد حاصل کیے جاسکیں جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ ان اداروں کے قیام کا حقیقی مقصد تو یہ تھا کہ مثالی اور معیاری اقدار کو فروغ دینا، مسلسل پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنا، موثر داخلی احتساب کو یقینی بنانا، ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی اور ایک بامعنی رائے کے طریقہ کار کو فروغ دینا شامل تھا اور اب اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی سے تو ان تحقیقاتی اداروں کا دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا اگر نظر آتا ہے تو یہ ہے کہ بعض اوقات یہ تحقیقاتی ادارے محض اور محض میڈیا کو ہی بدنام کرنے کے لیے ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں اور میڈیا کی جہاں ساکھ کو کمزور بنانے کے در پر نظر آتے ہیں تو کہیں میڈیا کی آواز کو ہی بند کرکے محض اور محض عوام کو حقائق سے لاعلم رکھنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے ظلم کے ہوتے ہوئے تو قومیں زندہ رہ لیتی ہیں مگر عدل کے بغیر قومیں زندہ نہیں رہتی جبکہ حقیقت تو یہ ہے بے عدلی کی بنیاد ہی ظلم پر مبنی ہوتی ہے اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
یا ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی
حیرت تو یہ ہے کہ یہ تمام تحقیقاتی ادارے محض اور محض وفاق کے حکم سے اٹھتے بیٹھتے اور سانس لیتے ہیں پھر بھی ان میں ایسی کالی بھیڑوں کا پایا جانا جہاں ملک کی سلامتی کے لیے سوالیہ نشان ہے وہاں ہی مظلوم اور بے زبان عوام کے لیے بھی جان کا ہی نہیں بلکہ ان کی عزت و ناموس کے لیے بھی خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ جہاں اس ملک میں غریب انسان کے لئے انصاف کا حصول تقریبا نا ممکن ہے اور اکثر شریف النفس عوام مقدمہ اور کورٹ کچہری کا نام سن کر ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوتا ہے کہ اگر اس مقدمہ بازی کے گھن چکر میں پڑے تو اپنا مسئلہ تو حل ہو یا نہ ہو البتہ وکلاء حضرات کی چائے پانی کا خرچہ لمبے عرصے تک بذمہ سائل ہو جاتا ہے اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شائد وکیل صاحب یہ سمجھ کر سائل کیساتھ نتھی ہو گئے ہیں کہ اگر یہ سائل ہاتھ سے نکل گیا تو ان کا دارو پانی بند ہوجائے گا حالانکہ تمام بنی و نوع کا حقیقی رازق تو خدا تعالیٰ کی ذات ہے ، اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر ہو نا تو یہ چاہئے کہ انصاف کی رسائی ہر شخص کی دہلیز تک میسر ہو مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس مملکت خداداد میں فی الحال انصاف کی آسان فراہمی کا تصور بھی ناممکن ہے۔
حال میں ہی ایک ایسا ہی تحقیقاتی کمیشن اس بات پر بٹھایا گیا ہے کہ مشہور گور نرکے بیٹے کو بازیاب کروانے کے متعلق آغاز میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اسے انتھک محنت کے بعد سیکیورٹی فورسز نے بازیاب کروایا ہے اور اس پر دنیا بھر سے مبارکباد یں بھی دل کھول کر وصول کی گئیں اس وقت بھی اس امر کی ذرا سی بھی وضا حت کی زحمت نہ توکسی حکومتی ترجمان نے گوارہ کی اور نہ ہی بازیاب کروانے کے دعویداروں نے وضاحت کی یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کے ذریعے سے مغوی کے اغوا ء سے رہا ئی تک کی مکمل تفصیلات منظر عام پر آگئیں اور اصل حقیقت عوام پر آشکارہ ہو ئی اب ہمارے ہونہار وزیر صاحب نے روایتی چستی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کمیشن کے قیام کا اعلان فرمایا ہے کہ کیوں تاوان کی ادائیگی کے ذریعے سے ہونے والی رہائی کو اپنے کھاتے میں ڈالا گیا یقیناًاس کمیشن کے اراکین کو اس کے نتیجہ تک پہنچنے کے لیے لاکھوں روپے بھی فراہم کیئے جائیں گے اور اس کے لیے قوم کے وقت کا بھی ضیاع ہوگا اور فائلوں کے پیٹ بھی حسب روایت بھرے جائیں گے اور آخر میں نتیجہ وہی حسب سابق نکلے گا جو کہ یقیناًصفر سے کچھ زیا دہ نہ ہو گا۔
کیا یہ حقیقت میں کوئی ایسا مسئلہ ہے جس کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے اور عزیر بلوچ اور منہاج جیسے سہولت کاروں سے عوام کی نظر ہٹا کر ایک ایسی طرف لگائی جائے جس کے باعث بڑی بڑی کالی بھیڑیں تو وطن عزیز میں مزے سے چرتی رہیں مگر ایک ایسا خاندان جو کہ پہلے سے ہی مظلوم ہے نہ صرف محض لوگوں کی نظروں میں بھی بدنام ہو بلکہ دہشت گروں کی نظر بد جن میں یہ فیملی پہلے ہی کانٹوں کی طرح چبھ رہی ہے آجائے اور اس فیملی کو مزید کوئی نقصان پہنچ سکے۔
پس جس ملک میں تحقیقات کے نام پر پیسے لوٹے جائیں اور جس ملک میں مظلوم کو ظالم بنا کر عوام کی نظر میں بدنام کیا جائے اس ملک میں فساد دور کی بات نہیں ہوتی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک میں حقیقت میں یا تو کوئی ایسا مرد مجاہد پیدا ہو گا جو اس ظلم کو اس دھرتی سے مٹا دے گا یا پھر معاذ اللہ دشمنوں کے ہاتھوں یا پھر ان کالی بھیڑوں کے ہاتھوں جلد ہی دنیا کے نقشہ سے یہ ملک مٹ جائے گا اور اللہ نہ کرے کہ ایسا ہواور یقیناًہماری جانباز فوجی قیادت کی موجودگی میں ایسا ہونا نہ صرف محض امر محال ہے بلکہ ایسا سوچنے والے بھی اپنے دن گننا شروع کر دیں کیونکہ ہمیں پورا یقین ہیں کہ ان کا محاسبہ بھی اب دور نہیں جو نام نہاد محاسب بنے بیٹھے ہیں!