|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2016

میں دکان کے باہر کھڑے بھکاری کے پاس گیا۔ میں نے اسے کچھ پیسے دیے اور پھر سڑک کنارے اپنے ساتھ چائے پینے کو کہا۔میرے خیال سے وہ اپنی عمر کی تیسری دہائی میں داخل ہو چکا تھا۔ اس کے والدین سوات سے آئے تھے مگر وہ پیدا اور بڑا کراچی میں ہوا تھا۔ اس نے چائے پینے کی دعوت قبول کر لی۔میں نے جب دو کپ کا آرڈر دیا تو اس کے فوراً بعد کہنے لگا کہ: ‘اب آپ پوچھیں گے میں بھیک کیوں مانگتا ہوں’۔ اس کی اردو کافی صاف اور واضح تھی۔ میں نے کہا، ‘نہیں’۔ اس نے پوچھا، ‘پھر اتنی خاطر تواضع کیوں؟’ اس کا ایک ہاتھ لرز رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ میں اس کے ہاتھ کی طرف دیکھ رہا تھا، جس پر کہنے لگا کہ ‘میں ہیروئنچی نہیں ہوں۔۔۔ میں نے کہا ‘غریب ہو۔۔۔۔’ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، اور آہستگی سے اپنا سر موڑ کر اس آدمی کو دیکھنے لگا جو ہمارے لیے چائے بنا رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ‘میں ایک صحافی ہوں۔’ اس نے اپنا چہرہ دوبارہ میری طرف موڑا اور کہنے لگا: ‘آپ میری کہانی لکھیں گے؟’ میں نے کہا ‘نہیں، مگر میں تم سے ایک سوال پوچھوں گا، مجھے امید ہے کہ تم ایمانداری سے جواب دو گے۔’ اس نے مجھے گھورا اور کہا: ‘میں دن میں ایک وقت بھی اچھا کھانا کھانے کی استطاعت نہیں رکھتا، لیکن سچ بولنے کی استطاعت ضرور رکھتا ہوں۔’ وہ پختون تھا لیکن اپنی اردو سے مجھے مسلسل حیران کیے جا رہا تھا۔ اس کے جواب نے مجھے کافی متاثر کیا۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ‘جب تم لوگوں سے پیسے مانگ رہے تھے، میں نے تمہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ تمہارے پاس نہ گھر ہے، نہ گھر والے، کچھ بھی نہیں۔۔۔’ اس نے پھر سے چائے والے کو دیکھتے ہوئے کہا: ‘یہ سچ ہے۔’ میں نے پوچھا، ‘تمہارے گھر والوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟’ اس نے کندھوں کو اچکاتے ہوئے کہا: ‘پتہ نہیں، ہم انتہائی غریب تھے۔ اس لیے میں اپنے گھر سے بھاگ گیا جو کہ ایک جھونپڑی تھی۔ اس وقت میں بہت چھوٹا تھا۔ میں سڑکوں پر ہی بڑا ہوا133.’ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا، اس نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا، ‘سڑکوں پر رہا، کتے کے مافق۔’ چائے آگئی، میں نے اس سے پوچھا کہ وہ چائے کے ساتھ کیک یا بسکٹ کھانا چاہے گا۔ اس نے پوچھا، ‘آپ کھائیں گے؟’ میں نے کہا، ‘نہیں مگر تمہارے لیے منگواتا ہوں۔’ میں نے ایک کیک کا ٹکڑا اور کچھ بسکٹ منگوا لیے۔ میں نے درخواست کی، ‘تو کیا اب میں اپنا سوال پوچھ سکتا ہوں؟’۔ اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے سر ہلایا۔ میں نے اس سے واضح انداز میں پوچھا، ‘کیا تم نے کبھی کسی ایسے شخص کو مارنا چاہا ہے جسے تم اپنی غربت کا ذمہ دار سمجھتے ہو؟’ وہ میرے سوال پر مکمل تسلی کے ساتھ چائے کا گھونٹ بھرتا رہا۔ تقریباً 30 سیکنڈ کے وقفے کے بعد اس نے جواب دیا: ‘جی، اپنے آپ کو۔’ میں نے پوچھا، ‘کیوں؟ کیونکہ تم غریب ہو؟’ اس نے جواب دیا، ‘نہیں، کیونکہ میں بھیک مانگتا ہوں۔’ میں نے کہا، ‘تم بھیک اس لیے مانگتے ہو کیونکہ تم غریب ہو۔’ اس نے فوراً جواب دیا کہ، ‘لاکھوں لوگ غریب ہیں۔’ پھر چہرہ میری طرف کر کے کہنے لگا، ‘لیکن وہ سارے تو بھیک نہیں مانگتے۔’ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور اس سے پوچھا، ‘کئی خوشحال لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ دوسروں کو قتل کرتے ہیں، جیسے خودکش بمبار، وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ غریب، نظر انداز کردہ اور بے توجہی کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔’ اس نے اپنا منہ چائے کے کپ سے لگاتے ہوئے کہا، ‘ان میں خدا کا خوف ختم ہو گیا ہے۔۔۔’ میں نے جواب دیا کہ، ‘وہ لوگ تو سمجھتے ہیں کہ یہ سب وہ خدا کے لیے کر رہے ہیں۔’ ہلکی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے اس نے کہا، ‘میں تو خدا کے نام پر بھیک مانگتا ہوں، اس طرح میرا بھیک مانگنا بھی ٹھیک ہے؟’ میں نے بھی جوابی مسکراہٹ سے جواب دیا، ‘ جو تم کرتے ہو اس پر ذاتی طور مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ ناخواندگی اور غربت کسی بھی شخص کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتی ہے، خاص طور پر جب وہ نظرانداز کر دیے جائیں اور بے توجہی کا شکار ہوں۔’ اس نے لاپرواہی سے پوچھا، ‘آپ نے کبھی بھیک مانگی ہے؟’ میں نے کہا، ‘نہیں، مگر ظاہر ہے جیسا کہ تم جانتے بھی ہو، میں تمہیں اچھا محسوس کروانے کی کوشش نہیں کر رہا اور نا ہی میرا مقصد بھیک مانگنے کو صحیح قرار دینا ہے۔’ اس نے کیک کا ایک ٹکڑا اٹھایا جو کہ چھوٹی سی پلیٹ میں پیش کیا گیا تھا، اور کہنے لگا: ‘آپ مجھ سے یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میں تو صرف ایک بھکاری ہوں اور کچھ نہیں۔ کیا آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں ایک دہشتگرد ہوں؟’ اس بات پر میں ہنسا لیکن وہ نہیں ہنسا۔ میں نے ہنسی کو روکتے ہوئے کہا، ‘نہیں’ اور پوچھا، ‘کیا تم ایسے کسی شخص کو جانتے ہو جو تمہاری طرح غریب ہو اور حالات سے تنگ آ کر کوئی جرم کر بیٹھا ہو؟’ اس نے دبی ہنسی کے ساتھ کہا، ‘ہاں، وہ چور بن گئے تھے مگر اب سارے جیل کے اندر ہیں۔’ میں نے پوچھا ‘تو کیا ان میں سے کوئی بھی اپنی حالت کے لیے حکومت یا معاشرے سے بدلہ لینا نہیں چاہتا جس وجہ سے انہیں عام لوگوں، سپاہیوں اور پولیس کو مارنا پڑا۔۔۔؟’ ‘خدا کا خوف ختم ہو گیا ہے۔۔’ میں نے پوچھا ‘جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک اور معاشرے نے بہت برا سلوک کیا ہے، جس وجہ سے وہ دوسروں کو مارتے ہیں، تو تم ان کے بارے میں یہ سوچتے ہو کہ ان میں خدا کا خوف ختم ہوچکا ہے؟’ اس نے کندھوں کو اچکاتے ہوئے کہا: ‘اگر میں اپنے بھیک مانگنے کو درست ثابت نہیں کرسکتا تو وہ لوگ اپنے قتل کرنے کو کس طرح صحیح ثابت کر سکتے ہیں؟’ میں نے کہا، ‘مگر تم تو اپنے بھیک مانگنے کو صحیح ثابت کرسکتے ہو۔’ اس نے جواب دیا، ‘نہیں، میں ایسا نہیں کر سکتا۔’ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ‘کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ دہشتگردی کی وجہ غربت اور ناانصافی ہے، مگر پھر بھی، مجھے نہیں پتہ کہ تمہیں معلوم ہے یا نہیں کہ ان دنوں اچھے خاصے پیسے والے کافی لوگ بھی دہشتگردی کر رہے ہیں۔ کیا تمہیں یہ پتہ تھا۔۔۔؟ وہ اپنا سر ہلانے لگا اور پھر سے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا: ‘خدا کا خوف ختم ہو گیا ہے۔’ میں دیکھ رہا تھا کہ چائے والا بار بار مڑ کر بھکاری کو دیکھ رہا تھا اور ہماری باتوں کو سن رہا تھا، مگر اس کے چہرے پر کوئی خاص تاثر عیاں نہ تھا۔ میں نے بھکاری کو سگریٹ کی پیش کش کی۔ اس نے ایک اٹھایا۔ میں نے اسے سگریٹ سلگا کر دیا۔ میں نے کہا، ‘میرا نام ندیم ہے، تمہارا نام کیا ہے؟’ اس نے کہا، ‘تم بہت متجسس آدمی ہو، تم نے مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ میں بھیک کیوں مانگتا ہوں، میں کام کیوں نہیں کرتا، کیا میں نے کبھی منشیات کا استعمال کیاہے یا نہیں۔۔۔’ میں نے کہا، ‘کیا تم استعمال کرتے ہو؟’ اس نے جواب دیا، ‘نہیں۔’ میں نے جواب دیا، ‘اچھی بات ہے، مجھے منشیات استعمال کرنا پسند نہیں۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا، جو کہ اب تک لرز رہا تھا۔ اس نے میرا دیا ہوا سو روپے کا نوٹ نکالا، ‘آپ بہت اچھے آدمی ہو۔ میں آپ سے یہ نہیں لے سکتا۔ میں اسے سگریٹوں اور سستی شراب میں ضائع کر دوں گا۔ پر ہوسکے تو مجھے اپنا سگریٹ کا پیکٹ دے دیں۔’ میں نے اس کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا، ‘نہیں، نہیں، یہ پیسے رکھو اور تم میرا سگریٹ کا پیکٹ بھی رکھ سکتے ہو۔’ اس نے کش لگاتے ہوئے مجھ سے کہا، ‘شکریہ۔ خدا آپ کو خوش رکھے’۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے اگلا سوال کرتا وہ مجھ سے پوچھنے لگا، ‘تو کیوں اچھے خاصے دولتمند لوگ بھی دہشتگردی کر رہے ہیں؟’ میں نے اپنے کندھوں کو اچکاتے ہوئے کہا، ‘مجھے نہیں معلوم، شاید وہ الجھن کا شکار ہیں اور مانتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے مذہب کی خدمت کر رہے ہیں۔’ وہ غیر متفقانہ انداز میں آہستگی سے اپنا سرہلاتے کہنے لگا: ‘خدا کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ خدا سے ڈرے بغیر کوئی کس طرح دین کی خدمت کر سکتا ہے؟’ میں نے اضافہ کیا، ‘یا اس کی مخلوق کا احترام کیے بغیر۔’ اب کی بار وہ میری بات سے متفق تھا۔ ‘ہاں۔ لوگ ہمیشہ مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ میں کیوں بھیک مانگتا ہوں، میں کوئی کام کیوں نہیں کرتا۔ میں انہیں کیا کہوں؟ میں انہیں کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ میرے پاس کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں ہے۔’ اتنے میں چائے والا پیچھے مڑا اور اس سے پشتو میں کچھ کہا جس پر وہ بے دلی سے مسکرا دیا۔ میں نے پوچھا، ‘اس نے کیا کہا؟’ ‘وہ کہتا ہے کہ میرے پاس دینے کو بہت کچھ ہے۔’ میں نے پوچھا، ‘وہ کیا؟’ وہ مسکرا کر کہنے لگا، ‘میرے پاس خدا کا خوف ہے۔۔۔’ یہ کہتے ہوئے وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا، ہاتھ ملایا اور سگریٹ کے پیکٹ کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے چلا گیا۔ میں نے چائے والے کو کہا کہ مجھے اس کی بھکاری کو کہی ہوئی بات بہت پسند آئی۔ چائے والے نے ہاں میں سر ہلایا اور پشتو لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے کہا، ‘اچھا بات تو وہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔’ میں نے جواب دیا، ‘بالکل’۔ میں نے چائے والے کو پیسے دیے اور اپنی گاڑی کی طرف لوٹ گیا۔ کچھ گز دور ہی وہ بھکاری اپنا روز کا کام کر رہا تھا۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر بھی مجھے لگا کہ اس نے مجھے بہت کچھ دے دیا تھا۔