|

وقتِ اشاعت :   March 5 – 2024

بلوچستان برسوں سے ملکی اور عالمی کارستانی کا شکار چلا آرہا ہے۔ بلوچ سرزمین پر کبھی انسانی حقوق کی پامالی کی جاتی ہے تو کبھی “گلوبل وارمنگ” سے پیدا ہونے والی “کلاؤڈ برسٹ” (بادل کا پھٹنا) کی زد میں آجاتی ہے۔ حال ہی میں بلوچستان کے 22 سے زائد اضلاع میں بادل پھٹ گئے جس کی وجہ سے سینکڑوں دیہات و قصبے ڈوب گئے۔
“کلائمیٹ چینج” سے پیدا ہونے والے “کلاؤڈ برسٹ” کا ذمہ دار انسانی عمل ہے۔ تاہم ریاست کے حمایت یافتہ افراد اپنے بیانیہ میں طوفانی بارشوں سے پیدا ہونے والی تباہی کو “خدا” کا عذاب قراردیتے ہیں تاکہ ریاستی اداروں کی جان چھوٹ سکے۔ان طوفانی آفات کے پیچھے حکومت کی غلط پالیسیاں ہوتی ہیں۔ سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے تاکہ وہ قدرت کے ساتھ کھلواڑ کرسکیں۔ ظاہری بات ہے آپ نیلے آسمان کو زہر کا گولہ دو گے تو وہ آپ کو پھول ہرگز نہیں دے گا۔ دراصل ان قدرتی آفات کی وجہ انسانی غفلت ہوتا ہے۔ ترقی کے نام پر قدرت کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے۔ ماحول میں زہریلی گیس چھوڑنے کی وجہ سے یہ آفات آتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے کراچی اور ضلع حب کی ساحلی پٹی پر چین کی جانب سے پاور پلانٹ لگائے گئے ہیں۔ بیشتر پاور پلانٹ کوئلے سے چلتے ہیں جس سے تیزی سے درجہ حرات بڑھ رہا ہے۔ حکمرانوں کے پاس ماحولیاتی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ملکی وغیرملکی سرمایہکاروں کو عالمی درجہ حرارت بڑھانے کی کھلی چھوٹ دی جارہی ہے۔ حب کی صنعتوں سے زہر اگل رہا ہے۔ اسی طرح گڈانی لک پاس پر سیمنٹ کی فیکٹری قائم ہے اور گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر بحری جہازوں کا زیریلی فضلہ پھینکا جاتا ہے جس نے پورے ماحول کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان ایک عالمی کچرا منڈی بن چکا ہے۔
اسی طرح عالمی دنیا بھی اپنی بدمعاشیوں سے پیچھے نہیں ہے۔ چین، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک 79فیصد کاربن اخراج کے ذمہ دار ہیں، امریکا نے1850سے اب تک509جی ٹی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کی۔ عالمی برادری کی غیر ذمہ داریوں کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھنے سے زمین کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
حال ہی میں کلائمیٹ چینج سے پیدا ہونے والے کلاؤڈ برسٹ سے بلوچستان میں تباہی برپا ہوگئی۔ گوادر شہر، سربندر، جیوانی، پیشْکان سمیت دیگر نواحی علاقے کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے زیر آب آگئے۔ پانی گھروں میں داخل ہوگیا جبکہ ناقص سیوریج سے نظام درہم برہم ہوگیا۔ ماہی گیروں کی متعدد کشتیاں ساحل کنارے کھڑی ڈوب گئیں جس کے بعد گوادر کو آفت زدہ علاقہ قراردے دیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے گوادر کا دورہ کیا۔ یہ دورہ صرف فوٹوسیشن تک محدود رہا کیونکہ حکومتی امدادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور گوادر کے شہری اپنی مدد آپ کے تحت قدرتی آفات کا مقابلہ کررہے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کے ضلع چاغی میں سڑکیں بہہ گئیں۔ جہاں ایران سے آنے اور جانے والی درجنوں مال گاڑیاں پھنس گئیں۔خاران میں کلان کے مقام پر گھر کی چھت گرنے سے دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ دوسری جانب نوشکی میں موسلا دھار بارش سے نالوں میں طغیانی، ریلوے لائن میں شگاف پڑنے سے پاک ایران ریلوے رابطہ منقطع ہوگیا علاوہ ازیں خضدار، نال، وڈھ سمیت مختلف علاقوں میں بارش، کوہلو شہر اور گردونواح میں بھی تباہی مچ گئی۔ قلات، پنجگور میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے، بجلی اور مواصلاتی نظام متاثر رہا۔ اسی طرح بارش کے باعث مچھ پل کا راستہ آمدو رفت کیلئے بند ہوگیا۔
بدقسمتی سے ہماری سرکار کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ سیلاب اور طوفان سے بچاؤ سے متعلق کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی جس سے تباہ کاریاں زیادہ سے زیادہ ہوجاتی ہیں۔ اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوجاتا ہے۔ خاندان کے خاندان سیلابی ریلے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ حکومتی ادارے قدرتی آفات کی تاک میں ہوتے ہیں۔ ہلاکتوں اور املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاتاہے۔ سروے کروائے جاتے ہیں۔ لوگوں سے ان کے شناختی کارڈز لئے جاتے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں روپے کے فنڈز کا اجرا ہوتا ہے لیکن وہ فنڈز متاثرین اور مستحقین کی بحالی پر خرچ نہیں ہوتے بلکہ سرکاری طورپر لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیوروکریسی اور وزراء کی موج ہوجاتی ہے۔ یہ الزامات نہیں بلکہ ماضی میں آنے والے سیلابوں اور طوفانوں کے کے تناظر میں دیکھاگیا ہے۔
دوہزار بائیس میں مون سون بارشوں نے بھی تباہی مچادی تھی جس کے باعث بلوچستان کے 34اضلاع کے چار لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ ان بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان میں ہلاکتوں کی تعداد 250 تک جا پہنچی۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا۔طوفانی بارشوں سے متاثرین کی بحالی کے لئے اقوام متحدہ سمیت دنیا کے بیشترممالک نے اربوں روپے کی امداد دی تاہم ایک روپیہ بھی کسی ایک متاثرہ خاندان کو نصیب نہ ہوسکا۔ یہ اربوں روپے کہاں گئے ، ان پیسوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کوئی نہیں جانتا۔ ڈھائی سو لوگ بغیر کفن کے دفنادیئے گئے۔ جبکہ راشی افسران اور وزرا ء نے خوب موج اڑائی۔ ان کی چاندی ہوگئی۔ راتوں رات ارب پتی بن گئے۔
دو ہزار بائیس کے مون سون کی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب نے لسبیلہ، حب، قلات، بولان میں تباہی مچا ئی، سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ڈھاڈر کے قریب دوپاسی لنک روڈ کا آخری حصہ بھی بولان کے سیلابی ریلے کی وجہ سے منہدم ہوگیا جس سے مہرگڑھ، کوٹ رئیسانی، کوٹ مینگل، نوشہرو، گہی کوٹ کھائی سمیت دیگر علاقوں کا زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔ بی بی نانی کا پل بھی سیلابی ریلے کی نذر ہوگیا تھا۔ ان طوفانی بارشوں نے ضلع قلات میں بھی تباہی مچائی۔ضلع صحبت پور میں سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ جس کی وجہ سے پورا ضلع صحبت پور سیلاب سے سمندر کا منظر پیش کرنے لگا، ہزاروں گھر منہدم ہوگئے، مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے۔
سنہ انیس سو اٹھانوے کو ضلع کیچ میں ایک بڑا سیلاب آیا تھا۔ سیلابی ریلا تربت کے علاقے مری آباد کی پوری آبادی کو اپنے ساتھ لے گیا۔ بیس سے تیس افراد سیلابی ریلے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراخترمینگل نے تربت کا دورہ کیا اور کروڑوں روپے امداد کا اعلان کیا۔ لیکن بدقسمتی سے کروڑوں روپے بندربانٹ میں چلے گئے۔ متاثرین کو ایک ٹکا تک نہیں ملا۔
سنہ دوہزار سات کو میرانی ڈیم کے اردگرد آبادی کو سیلابی ریلے نے تباہ کردیا۔ اربوں روپے کے املاک کو نقصان پہنچا۔ کھیت کھلیان اجڑ گئے۔ بے شمار لوگ بے گھر ہوگئے۔ نقصانات کے سروے کے بعد ایک سے ڈیڑھ ارب روپے متاثرین کے لئے مختص کردیئے گئے۔ لیکن بدقسمتی سے آدھی رقم تقسیم کرنے کے بعد فنڈز کا اجرا روک دیا گیا۔ آج تک متاثرین سراپا احتجاج ہیں۔
اسی طرح دو ہزار دس اور دو ہزار بارہ میں نصیر آباد ڈویژن میں دو طوفانی سیلابوں نے تباہی مچادی ۔ متاثرین کی بحالی کے لئے اربوں اور کروڑوں روپے رکھے گئے لیکن آج تک انہیں کچھ نہیں ملا۔ متاثرین کے پیسے کہاں گئے؟ کس نے ہڑپ کئے؟ آج تک یہ ایک راز ہے۔
ایسا لگتا ہے گلوبل وارمنگ کاتدارک حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ جبکہ پوری دنیا میں کلائمنٹ چینج پر کام ہورہاہے۔ کیونکہ گلوبل وارمنگ، دہشت گردی جیسے چیلنج سے زیادہ گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ دنیا میں ہر سال30 لاکھ سے زائد افراد صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی حکام ان موسمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے ی بجائے ” بھاڑ میں جاؤ! ” والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔