|

وقتِ اشاعت :   March 27 – 2024

آئین میں متعینہ ادارتی فرائض اور ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ریاست کی معیشت اور کاروبار سمیت سیاست پر قابض طالع آزما وقتاً فوقتاً آئین کو ہی لپیٹ کر ملک کے دستور العمل کو سرِ بازار کاغذ کے ٹکڑوں سے تعبیر کر کے عملاً ثابت کرتے رہے ہیں کہ ہم جب چاہیں ملک کے آئین کو نہ صرف معطل کر کے کوڑے دان میں پھینک سکتے ہیں بلکہ عدلیہ کی ممد و معاونت سے نظریہِ ضرورت کے موثر نسخے کو استعمال کر کے اِسے موم کے ناک کی طرح مغرب اور مشرق کی طرف موڑ کر درمیان میں لٹکا بھی سکتے ہیں ۔

دانشور لوگ آئین اور قانون کو سماج کی اجتماعی اقدار ، مثبت روایات اور صدیوں پر محیط ضابطہِ حیات کے برخلاف عوام پر مسلط مْٹّھی بھر حکمرانوں کا منشاسمجھتے ہیں دنیا بھر میں انسانی حقوق ، اختیارات اور آزادیوں پر بندش لگا کر آئین کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا مشکل ترین بلکہ ناممکن عمل کیوں نہ ہو ہمارے ملک کے مفلوک الحال عوام سمیت خاندان پرور ، مفاد پرست اور کرپٹ سیاستدان چونکہ بارہا اِس آزمائش سے گزر چکے ہیں لہٰذا اْن کو اِس قسم کے طلاطم خیز طوفانوں سے گزرنے کی چونکہ عادت ہو گئی ہے اس لئے وہ برداشت کر جاتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ذاتی اور خاندانی اغراض رکھنے کے سبب اِن سیاستدانوں کے پاس برداشت کے سوا دوسرا کوئی چارہِ کار بھی تو نہیں ہے۔

ملک کے آئین میں نگران حکومتوں میں شامل وزراء کو انتخابات میں حصہ لینے اور کابینہ کا حصہ بننے کی اجازت اگرچہ نہیں ہے مگر غیرجانبداریت کے دعوؤں ، زبانی جمع خرچ اور نعروں کی گونج جب زبان زدِ عام بن کر خاص سے نکل کر عوام الناس تک پہنچ جائے اور پھر مراجعت کی شکل اختیار کر لے تو وقت کی ابدی ضروریات اور وزارتوں کی تقسیم کاری کو تکمیل تک پہنچانے کے لیئے ضروری ہو تو پھر ہم ان کو وزیر ، وزیرِاعلیٰ یا پھر چیئرمین سینٹ کیوں نہیں بنا سکتے۔ ذرا خود بھی تو سوچ لیجیئے کہ انوار الحق کاکڑ ، سرفراز بگٹی اور محسن نقوی جیسے انمول ہیرے قحط الرجال کے موجودہ دور میں جہانِ فانی یا لافانی کے کس کونے میں ملیں گے جو چودھری بہادر کے ساتھ استوار وفاداری اور غیر متزلزل عزم و ارادے کو بنیاد بنا کر مخالفین کو تہِ تیغ کرنے پر آمادہ ہوں یا پھر فیصل واؤڈا جیسے ثابت قدم اور شہد زبان ترجمان کہاں ملیں گے جو شیخ رشید کی کمی کی خَلش اور چْھبن کو رفع کر کے باعثِ تسکینِ دل و دماغ ثابت ہو سکے ۔

فہم و فراست اور بالیدگی کے ساتھ اِن تجربات سے سبق حاصل کر کے سنبھل کر چلنا چاہیئے۔ نامور صحافی اعزاز سید کہتے ہیں کہ ملک کی تاریخ میں اب تک تمام وزرائے عظمیٰ یہاں تک کہبنگلہ دیش بننے کا تاریخی داغ ، تذلیل اور سْبکی کے بعد بھی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مدت پوری نہیں کی تھی مگر ناتمام حکومتی دورانیوں پر یقینِ کامل رکھنے کے باوجود نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ تین کی بجائے چھ مہینے تک بلکہ اس سے کچھ زیادہ مدت کے دوران وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر براجمان رہے جو ملک کے چودھریوں کے ساتھ اْن کی وفاداری اور اہلیت کا دلیل بلکہ ناقابلِ تردید ثبوت ہے ۔اس سے ایک اور سچائی کی معروضیت کو مکمل نہ سہی تو جھلک کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جس خطہِ ارض میں ہم رہتے ہیں وہاں دراصل قوم ، عوام ، پارٹی ، سیاست ، نظریہ ، جمہوریت اور ملک کے آئین و قانون پر عمل سے زیادہ خداٰئی مخلوق اور ان کے حواریوں کے ساتھ وفاداری ثابت کرنا ہی پیمانہِ اہلیت ہے، جو لوگ اِس پیمانے پر اْتر سکتے ہیں وہ سب یک بَہ یک مذکورہ شخصیات کی طرح باضمیر اور وفادار ہیں ورنہ اْن سے نالائق اور بدکردار کوئی نہیں ہے ان کو اگر غدّار سمجھا یا کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

ان حالات میں کوئی اگر کہہ دے کہ اِس غیر منطقی اور جمہوریت دشمن ذہنیت اور طرز عمل کے خلاف ملک کی بڑی پارٹیوں نے جدوجہد کی ہے تو اِس دلیل کے ساتھ اتفاق نہیں کیا جا سکتا نہ ہی ملک کی پوری سیاسی تاریخ میں اِس قسم کی جدوجہد کے آثار کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ملک کی بڑی پارٹیاں مقتدرہ کی ہی پیداوار ہیں اور پیدائش سے لے کر اب تک مقتدرہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ہیں اس سے زیادہ ان پارٹیوں کی حقیقت اور حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ۔ملک ، عوام اور جمہوریت کے لیئے ان خاندانی پارٹیوں کی قربانیاں زیرو کے برابر بھی نہیں ہیں جو بظاہر تو کچھ بھی نہیں ہے مگر پھر بھی مادی ہستی کے طور پر وجود رکھتی ہے جبکہ بڑی پارٹیوں نے ملک ، عوام اور جمہوری اقدار کی پرورش کے میدان میں اپنی ہستی کو نیستی میں تبدیل کر دیا ہے پھر یہ بھی کہ مذکورہ مقاصد اور اہداف کو سر کرنے کے لیئے مستقبل قریب یا بعید میں ان بڑی پارٹیوں کے ساتھ اْمید وابستہ رکھنے کی گنجائش اور جواز موجود بھی نہیں ہے تاکہ کوئی آس لگا کر منتظر رہے کہ یہ لوگ اْٹھ کر ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کر دیں گے اور ملک کے محکوم اقوام کو حقوق اور اختیارات دلا دیں گے یا پھر پاکستان کو معاشی طور پر ترقی دے کر ہندوستان کی طرح دنیا کی پانچویں اور تیسری معیشت نہ سہی تو ملک کو کم از کم آئی ایم ایف کے قرضوں کی دلدل سے نکال دیں گے۔ نواز اور شہباز شریف ہوں کہ زرداری یا پھر عمران خان یہ سب شراکت دار کے طور پر لْوٹ کے مروجہ نظام کو تحفظ دے کر دوام بخشنے کے لیئے مقتدرہ کے مْہرے ہیں اِس سے زیادہ اِن قائدین اور ان کے پارٹیوں کی نہ کوئی بساط ہے اور نہ ہی حیثیت لہٰذا ان سے بہتری کی اْمید رکھنا وقت کا زیاں ہے ،پھر یہ بھی کہ اِن پارٹیوں میں موجودہ ناقابلِ برداشت سیاسی اور معاشی صورتِ حال کو تبدیل کر کے ملک کو دْرست ڈگر پر ڈالنے کے لئے کسی قسم کی جْنش یا خواہش موجود بھی نہیں ہے لہٰذا اس گرداب سے نکلنے ، جان بچانے اور اپنے قومی بقا و ہستی کو قائم رکھنے کے لیئے ضروری ہے کہ ملک کے محکوم اقوام کے قوم دوست قائدین اور سیاستدان پارلیمانی سیاست کی تاریخ ، نتائج اور بارہا کی لاحاصل تجربات سے سبق حاصل کر کے پی ٹی ایم اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی حکمتِ عملی کو اپناتے ہوئے پْرامن طرز پر مشترکہ جدوجہد کی ابتدا کر یں تو یہ فیصلہ خود اِن قائدین اور پارٹیوں کے لیئے ایک مثبت اور مناسب تر طرزِ عمل ہوگا۔ یہ بھی کہ اِس طرز پر سیاست کے اسباب و علل کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں کہ پاکستان میں انتخابات میں حصہ لے کر عوام کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے کے راستے روز اوّل سے مسدود کردئیے گئے ہیں اور پھر وقت کی رفتار کے ساتھ ارتقا کے معکوس سفر نے موجودہ دور میں جمہوری طرز پر انتخابات لڑ کر کامیاب ہونے اور عوام کی نمائندگی کرنے کے لیئے تمام تر راستے سراسر بند کر دیئے گئے ہیں۔ اِس نقطے پر ذرا ٹھر کر غور کیجیئے کہ اِس ملک میں مقتدرہ کی منشا کے ساتھ اپنی رضا کو شامل کر کے قوم ، عوام ، ملک اور جمہوریت کے لیئے کچھ کرنے کا اختیار پنجابی ہونے کے باوجود جب نواز شریف اور عمران خان کے پاس نہیں ہے تو اِس ملک میں بلوچ اور پشتون قائدین ذات اور خاندان سے آگے دونوں اقوام کے لیئے کیا کر پائیں گے ؟