|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2024

پاکستان توانائی کے شدیدبحران سے دوچار ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے مختلف حکومتوں کی جانب سے اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر توانائی بحران پر جتنے منصوبے بنائے گئے ان کے نتائج مثبت نہیں نکلے۔

2008میںپاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں توانائی بحران سمیت تجارتی فروغ کیلئے پاک ایران گیس منصوبے کامعاہدہ کیا گیا مگر یہ منصوبہ عالمی دباؤ کے باعث آج تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ بہرحال اب ایک بار پھر پاک ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل کیلئے پاکستان کی جانب سے کوششیں کی جارہی ہیں مگر امریکہ نے پھر ایک بار ایران کے ساتھ تجارت کے حوالے سے پابندیوں کا عندیہ دیدیا دیتے ہوئے خبردار کیا ۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق کہاکہ کسی ممکنہ کارروائی پر تبصرہ نہیں کر سکتے اور ہرایک کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ سب کو مشورہ ہے ایران کے ساتھ کاروبار سے پہلے اس بات پرغور کریں،

اسسٹنٹ سیکرٹری نے واضح کیا تھا ہم اس پائپ لائن کو آگے بڑھانے کی حمایت نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ 23 فروری کو نگران کابینہ توانائی کمیٹی نے ایرانی بارڈر سے گوادر تک 81 کلومیٹرپائپ لائن بچھانے کی منظوری دی تھی۔

اطلاعات کے مطابق پائپ لائن بچھانے سے پاکستان 18 ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی سے بچ جائے گا اور ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750 ملین کیوبک فٹ گیس انتہائی سستی ملے گی جبکہ موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکی پابندیوں کے خلاف استثنیٰ کی درخواست کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔

نگران حکومت نے امریکی پابندیوں کیخلاف درخواست دائر کرنے کا پلان مؤخرکیا تھا۔

درخواست دائرکرنے کا پلان جیوپولیٹیکل صورتحال کے باعث مؤخرکیا گیا تھا اور منسٹریل اوورسائٹ کمیٹی نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق فیصلے کیے تھے۔

بہرحال امریکہ کی جانب سے واضح پیغام کے بعد مشکل لگتا ہے کہ موجودہ حکومت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کرے مگر دونوں صورتوں میں نقصان پاکستان کے حصے میں آئے گا ۔

سفارت کاری سے کوئی درمیانی صورت بنے گی یا نہیں ،فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔