پانی اللہ کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہے،جس کے ضیاع کو روکنے کیلئے عوام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے،پانی بچاؤ کیلئے عوام کو حکومت کے ساتھ مل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے لوگوں کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سے ایک چیلنج پانی اور سیوریج کا وہی پورا سسٹم ہے جس کی بہتری کیلئے حکومتی سطح پر کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی مستقبل میں اس حوالے سے کوئی اقدامات نظر آ رہے ہیں
اگر صوبائی بجٹ جو صرف سیوریج سسٹم کیلئے پاس ہوتا ہے اس کو بروئے کار لایا جائے تو کوئٹہ شہر میں سیوریج کے سسٹم میں موجود کئی خامیوں کو دور کرکے عوام تک صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور بارش کے دوران بند نالیوں کی وجہ سے گندے پانی کا بہاؤ جس کی وجہ سے لوگوں کے گلیوں اور گھروں میں گندا پانی جمع ہوجاتا ہے، اس مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بجٹ سیوریج سسٹم کیلئے پاس ہوتا ہے اسے صرف سیوریج کے سسٹم پر ہی خر چ کیا جائے۔
کوئٹہ شہر میں کئی اقوام اسٹیک ہولڈر ز ہیں یہاں پر ذمہ داری کسی ایک پر ڈالنے سے بھی لوگ کتراتے ہیں اس وجہ سے بھی کئی عوامی مسائل حل کی جانب نہیں بڑھ رہے۔کوئٹہ میٹروپولیٹن کی کارکردگی بھی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، جس طرح تیزی سے صوبے کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اسی طرح میٹروپولیٹن کی زمہ داریوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی موجودہ کارکردگی سے بھی کوسوں دور نظر آرہا ہے۔ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈر ز کو مل کر سیوریج اور پانی کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، خاص کر عوام میں شعور پیدا کرنا ہوگا کہ پانی کے بچاؤ اور سیوریج سسٹم کی روانی کو برقرار رکھا جا سکے۔دنیاکی طرح ہم بھی بارش اور واش رومزسے نکلنے والے پانی کو بھی ضائع ہونے سے بچائیں۔
اس حوالے سے گزشتہ دنوں کوئٹہ پریس کلب میں غیر سرکاری تنظیم ہیومن آرگنائزیشن فار پیس فل انوائرنمنٹ (HOPE) موبلائزیشن آف میڈیا آن سٹی وائیڈ انکلوسیو سنیٹیشن (CWIS) انڈر رائزنگ فار رائٹس پروجیکٹ کے عنوان سے صحافیوں کے لئے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی۔جس میں شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر میں نکاسی آب کا بہتر نظام اور اس مد میں بجٹ مختص نہ ہونے کے سبب شہر میں صفائی کا نظام درہم برہم ہے، بارش کے ہوتے ہی گٹر ابل پڑتے ہیں اور سڑکوں پر گندا پانی بہناشروع ہو جاتا ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ کوئٹہ شہر میں صحت و صفائی، نکاسی آب اور شہریوں کو صاف پینے کی فراہمی کے لئے حکومت، غیر سرکاری و فلاحی اداروں اور بالخصوص میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر ایک جامع پالیسی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ شہر میں صاف پینے کی پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے مختلف موذی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، گندے پانی کے استعمال سے دنیا میں روزانہ کی بنیاد پر سات سو سے زائد بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔شرکاء نے کا کہنا تھا کہ کمیونٹی میں جا کر لوگوں میں صحت و صفائی کی اہمیت، نکاسی آب اور آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے سے متعلق لوگوں کو آگاہی فراہم کریں، جب لوگ صفائی کا خیال رکھیں گے تو وہ بیماریوں سے محفوظ رہیں گے اور صحت کی مد میں بجٹ کی بھی بچت ہوگی۔شہر میں کچرے اور گٹر کے پانی کو دنیا بھر کی طرح ری سائیکل کرکے قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے،
جس کے لئے ایک موثر میکینزم بنانے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں وہ منتخب نمائندوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے ساتھ اس مہم میں شامل کریں گے تاکہ کوئٹہ شہر میں صحت و صفائی کے نظام کو بہتر بنایا جاسکے۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ اس طرح کی ورکشاپس کا انعقاد کرنا آگاہی کے حوالے سے صحافیوں کے لئے ایک کارآمد ثابت ہوں گی اور اس حوالے سے حکومت بلوچستان کو بھی چاہیے کہ وہ سیوریج سسٹم اور پینے کے پانی کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا اہم کردارادا کرتے ہوئے کوئٹہ شہر کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی اپنی بھرپور کوشش کرے۔