|

وقتِ اشاعت :   April 12 – 2016

یہ خوش آئند بات ہے کہ نوجوان ڈاکٹروں نے اپنے احتجاج کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان وزراء کی ایک کمیٹی سے مذاکرات کی کامیابی کے بعد کیا گیا ۔ ڈاکٹروں کا بنیادی مطالبہ تنخواہوں میں اضافے کا تھا ۔ہر ذی شعور شخص ان کے اس مطالبے کی حمایت کرتا ہے مگر ان کو ہڑتال کرنے اور ہنگامے آرائی کا حق نہیں دیتا ۔ یہ مسئلہ کھڑا ہی نہیں ہوتا اگر پڑھے لکھے ڈاکٹر اور مسیحا مہذب طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے اور عوام الناس حکومت کومجبور کرتے کہ ان کے مطالبات جائز ہیں لہذا ان کو تسلیم کیا جائے ۔ ویسے بھی پڑھے لکھے مسیحاؤں کا صرف احتجاج ہی حکومت کے اخلاقی شکست کا باعث بنتی ہے ۔ حکومت اس سے زیادہ بدنامی کا شکار ہوتی ہے کہ سماج کے زیادہ تعلیم یافتہ اور انسانیت کی خدمت کرنے والا طبقہ حکومتی پالیسیوں سے خوش نہیں بلکہ ناراض ہے اور احتجاج کررہا ہے جو حکومت وقت کے لئے نہ صرف سبکی کا باعث ہوگا بلکہ اس کی غیر مقبول ہونے کی ایک سند ہوگی ۔اور یہ کسی بھی مقبول اور عوامی حکومت کو قابل قبول نہیں ہوگی اور جلد حکومت اس سمت میں فوری کارروائی کرکے اپنا ساکھ بحال رکھنے کی کوشش کرے گی۔ دوسری جانب ڈاکٹروں نے احتجاج کے دوران بچگانہ رویے کا ثبوت دیا جلوس نکالنا اور جلسہ کرنا ان کا حق ہے تاکہ وہ اپنے شکایات کو عوام اور پھر حکومت کے سامنے درج کراسکیں ۔یہ مظاہرہ اسپتال کے اندر زیادہ بہتر اور باعزت طریقے سے ہوسکتا تھا دوران ڈیوٹی ایک گھنٹہ نکال کر اسپتال کے ایک مناسب مقام پر یہ احتجاجی مظاہرہ ہوسکتا تھا میڈیا خود وہاں پہنچ کر اس جلسے اور احتجاج کی رپورٹنگ کرتی ،ان کا اسپتال سے باہر نکلنا مریضوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے دفاتر کا رخ کرنا جذباتی اور غلط عمل تھا ۔ وزیراعلیٰ کے دفاتر ، گورنر ہاؤس، سول سیکرٹریٹ ریڈ زون میں واقع ہیں جہاں پر مظاہرہ کرنے ، اجتماع کرنے اور جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ پڑھے لکھے ڈاکٹروں کو یہ معلوم تھا کہ پولیس اور انتظامیہ اس کی اجازت نہیں دے گی اور ضرور کارروائی کرے گی اس میں طاقت کا بھرپور استعمال اور گرفتاریاں ہوسکتی ہیں ۔ اس کا واحد مقصد یہ ہے کہ ہر حال میں طاقت کے سرچشمہ کی حرمت اور احترام بحال رکھا جائے کسی بھی شخص کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ سول سیکرٹریٹ، گورنرہاؤس اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی حرمت کو پامال کرے ۔ اگر ڈاکٹر صاحبان کو یہ معلوم تھا تو انہوں نے وہاں کا رخ کیوں کیا جس کے خلاف پولیس نے بھرپور کارروائی کی جس سے بعض ڈاکٹر شدید طورپر زخمی ہوئے۔ اور حکومت کو ان کو ہوائی جہاز میں راتوں رات کراچی بہتر علاج کیلئے لے جانا پڑا۔ اس سے بھی حکومت کی سبکی ہوئی کیونکہ حکومت نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا کم سے کم قوت استعمال کرکے احتجاج کو روکا جا سکتا تھا اگر انتظامیہ کے اعلیٰ ترین افسران مظاہرہ کے وقت موجود ہوتے تو احتجاج کے رخ کو تبدیل کیا جا سکتا تھا جس سے حکومت اور انتظامیہ کی بدنامی نہیں ہوتی ۔ ڈاکٹر حضرات کو عوام الناس کی ہمدردیاں دو وجوہات سے نہیں ملیں ۔ایک علاج معالجہ چھوڑ کراحتجاج کرنا اور دوسرے احتجاج کے دوران عوام الناس کو مشکلات سے دوچار کرناخصوصاً سڑکوں پر آمد و رفت میں ڈالنا شامل تھا۔ اس لئے ہمارا احتجاج کرنے والوں کو یہ مشورہ ہے کہ احتجاج ضرور کریں مگر لوگوں کے آمد و رفت میں کوئی خلل نہ ڈالیں ۔ ٹریفک کی روانی کو متاثر نہ کریں کسی بھی راہ گزر کی دل آزاری نہ کریں ۔ ہمارا حکومت اور خصوصاً مقامی انتظامیہ کو یہ برادرانہ مشورہ ہے کہ آئندہ اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لئے ایک خاص اور مناسب مقام کا تعین سرکاری طورپر کیاجائے اس کی تشہیر بھی کی جائے کہ مظاہرے فلاں مقام پر ہوں گے۔ باقی مقامات پر مظاہرہ کرنے پر پابندی ہوگی ۔ جلوس کی صورت میں ٹریفک کی روانی کو متاثر نہ کیاجائے اور نہ سڑکیں بند کریں اور عوام الناس کوایزا رسانی کی صورت میں جلوس کے منتظمین کو گرفتار کیاجائے گا اور ان کو قوانین کے مطابق سزائیں دی جائیں گی ۔مظاہرین پر یہ واضح کیاجائے کہ ریڈ زون یا سیکورٹی زون میں مظاہرہ کرنے اور جلوس نکالنے پر پابندی ہے ۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیاجائے گا اور ان کو سزا دی جائے گی ۔یہ واضح اعلان حکومت کی جانب سے ضروری ہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی ضروری ہے تاکہ لوگ اپنی ذاتی مرضی کی بناء پر سڑکیں بند نہ کریں اور ٹریفک کی روانی میں خلل نہ ڈالیں ۔