(آٹھویں قسط)
شدید سرد رات میں کیچ کی گوریچ اپنے زوروں سے چل رہی تھی کجھور کے درختوں کی آوازیں بند کمروں میں بھی لوگوں کی نیند خراب کررہی تھی، تربت قلعے کی برج پر مکران لیوی کور کے دو سپائی موٹے چادر اھوڈے برج کی دیوار کے ساتھ لپٹے ہوئے پہرہ دے رہے تھے ، ایک سپائی نے گوریج کی ہوا اور کجھور کے درختوں کی آوازوں کے علاوہ کچھ عجیب آوازیں سنے ، اس نے دوسرے سپائی کو اس طرف متوجہ کیا دونوں نے غور سے سن کر مشورہ کرکے کہا کہ منشی بولارام کو اطلاح کرنا چائیے ،ایک سپائی نے نیچے جاکر بولارام کو نیند سے جگاکر اطلاح کردیا ، جب منشی برج پہ چڑھ گیا تو گھوڈوں اور اونٹوں کی ٹاپوں کی خوفناک آوازیں آرہے تھے ، کچھ لمحے منشی وہی کھڑا جائزہ لے رہا تھا کہ یہ آوازیں قریب آگئے ، منشی نے کہا کہ یہ باغیوں کا لشکر ہے فورا جاکر دیوان اڈھوداس کو اطلاح کردو ، اگلے ہی لمحے قلعے کی برجوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگیا اور جو سپائی برج پر منشی کے ساتھ تھا اسے گولی لگ گیا وہی موقع پہ گرگیا ، منشی نے بندوق اٹھا کر مزاحمت کیا لیکن اندھیرے اور تیز ہواوں کی وجہ سے منشی کا سمجھ کام نہیں کررہا تھا ، ایک گولی منشی کی سر پر لگ گیا منشی موقع پہ ہلاک ہوگیا ، ہنگامی حالت میں نیند سے اٹھ کر دیوان اڈھوداس حواس باختہ قلعے کے درمیان کھڑا تھا، گوریچ اور کجھور کے درختوں کی آوازوں کے ساتھ باغیوں کی اندھا دھند فائرنگ کی وجہ سے ایسا خوفناک ماحول تھا کہ کوہی بھی سپائی برجوں پہ جانے کے لیے تیار نہیں تھا ، دیوان نے مکران لیوی کے ایک کماندار کو کہا کہ برج پہ جاکر اعلان کردو کہ ہم قلعے کو حوالا کرنے کے لیے تیار ہے ، دو اور سپائیوں کو حکم دیا کہ جیسے ہی قلعے کے دروازے کھل گئے ایک ناصر آباد جاکر نائب عبدالکریم کو اطلاح کردو دوسرا شاہی تمپ جاکر سردار شئے عمر کو اطلاح کردے ، کماندار نے اوپر جاکر اعلان کیا کہ ہم قلعہ حوالے کرنے کے لیے تیار ہے ، محراب خان نے اپنے ساتھیوں کو فائرنگ روکنے کا حکم دے دیا ، قلعے کی دروازے کھل گئے محراب خان فاتحانہ انداز میں قلعے میں داخل ہوکر دیوان اڈھوداس کو گرفتار کرنے اور قلعے کو لوٹنے کا حکم دے دیا ، چھ ہزار روپے رقم ، پانچ سائیڈر کی بندوقیں اور گولیاں ، گشتی پارٹی کے لیے محفوظ کیے گئے تمام راشن باغیوں نے محراب خان کے سامنے پیش کردیا ، کمبر نے محراب خان سے کہا کہ قریب کے جتنے بھی قلعے ہیں سب پر آج رات ہی قبضہ کرنا چائیے ، محراب خان نے چند ساتھیوں کو بھیج کر گشتاگ کے قلعے پر بھی قبضہ کرلیا ، شاہی تمپ میں شئے عمر کی آرام گاہ کے دروازے پر خادم نے دستک دے کر شئے عمر کو جگا کر کہا کہ تربت قلعے سے مکران لیوی کے سپائی ناظم اڈھوداس کا پیغام لیا ہے ، شئے عمر دھڑکتے دل کے ساتھ مہمان خانے میں گیا ، سپائی نے تمام حالات سنا دئیے ، شئے عمر کی چہرے کی رنگت اڑگیا اور سپائی سے پوچھا کہ محراب خان نے دیوان کو قتل تو نہیں کیا سپائی نے جواب دیا دیوان ابھی تک زندہ ہے لیکن گرفتار ہے ، شئے عمر ہنگامی حالت میں تربت قلعے کی طرف روانہ ہوگیا ، دوسرے سپائی نے ناصر آباد پہنچ کر نائب عبدالکریم کو تمام حالات سے آگاہ کردیا ، نائب عبدالکریم نے ایک سپائی کو حکم دیا کہ کلاتک جاکر ٹیلی گراف کے ذریعے اے جی جی کو تمام حالت سے باخبر کردو اور خود شئے قاسم کو لے کر تربت کی طرف روانہ ہوگیا ، جب عبدالکریم اور شئے قاسم تربت قلعے میں پہنچ گئے شئے عمر اور محراب خان کے درمیان گرما گرمی چل رہا تھا ، عبدالکریم نے معاملے کو ٹھنڈا کرتے ہوئے محراب سے کہا کہ آپ نے قلعے پر قبضہ کرکے اپنا مقصد پورا کرلیا ہے دیوان کے قتل سے پوری برطانوی سلطنت آگ بگوکہ ہوجائے گا اور اس اگ میں پورا مکرن جل جائے گا ، طویل منت سماجت کے بعد محراب خان نے دیوان اڈھوداس کو عبدالکریم اور شئے عمر کے حوالے کردیا ، شئے عمر اور عبدالکریم نے دیوان سمیت قلعے میں موجود مکران لیوی کور اور قلات کمپنی کے تمام سپائیوں کو نکال کر کلاتک کے قلعے میں پہنچ کر قلعہ بند ہوگئے ، محراب خان گچکی کی خط ملتے ہی بلیدہ سے محراب خاں نوشیروانی اور مہیم خان نوشیروانی ، تمپ سے شکراللہ گچکی ،تربت کے معتبر ملا خداداد، دشت سے کہدہ نبی بخش ، نوکبر کلانچ سے ملا مبارک اور مراد خان ، گشتانگ سے میر اشرف رند اور ملا غلام ، کوشکلات سے میردوست محمد، نگور سے نور محمد اپنے لشکروں کے ساتھ محراب خان گچکی کی مدد کے لیے تربت قلعے میں پہنچ گئے ، محراب خان کی دوہزار لشکر میں مقامی درزادگ بھی شامل تھے ، محراب خان کی بغاوت کی خبر سن کر مند سے رندوں نے لوٹ مار کے لیے دشت کی طرف پیش قدمی شروع کردیا، ناظم اور عبدالکریم کی مدد کے لیے مند سے سردار خان محمد رند اور نودز سے بہرام خان اپنے مسلح لوگوں کے ساتھ کلاتک کی قلعے میں پہنچ گئے ، شیرمحمد گچکی پہلے سے کلاتک کے قلعے میں موجود تھا ، نائب عبدالکریم نے ایک سپائی کو سامی کے سردار محمد حسن گچکی کے پاس بھیج دیا کہ ھیکی اور پرنٹے کی سربرائی میں کام کرنے والے سروئے پارٹیوں کی حفاظت کیا جائے، محراب خان گچکی کے بھائی رستم خان گچکی کو پولیٹیکل ایجنٹ نے کولواہ میں کپتان برن کی سروئے پارٹی کی حفاظت کے لیے مامور کیا تھا ، بغاوت سے ایک دن قبل محراب خان نے رستم خان کو خط کے ذریعے حکم دیا تھا کہ سروے پارٹی پر حملہ کردو ، برن کا سروئے پارٹی جمپور سے جنوب کی طرف مرگی ھور پر کام کررہا تھا اور برن خود بیماری کی وجہ سے تین دنوں سے کام کے جگہ سے تین کلومیٹر دور آرام کررہا تھا ، بلوچ خان نوشیروانی کی مدد سے رستم خان نے مرگی ھور کی سروے پارٹی پر حملہ کرکے بہت سے قلیوں کو قتل کردیا ایک قلی بھاگ کر برن کے پاس پہنچ گیا ، حملے کی خبر سن کر برن وہاں سے بھاگ کر بلور کے قلعے میں غلام محمد کے پاس پناہ گزین ہوگیا ، لیکن جب برن کو پتا چلاکہ رستم خان کی ان حملوں کے پیچھے بلوچ خان کا ہاتھ ہے اسے شک ہوا کہ غلام محمد بھی بلوچ خان کے ساتھ ملا ہوا ہے اونٹ پر سوار ہوکر اورماڑہ کی طرف فرار ہوگیا ، اورماڑہ پہنچ کر برن نے ٹیلی گراف سے اے جی جی کو سروئے پارٹی پر حملے کی خبر بھیجا اور بتایا کہ لیفٹینٹ برٹر مجھ سے سو کلو میٹر دور سروے کررہا تھا وہاں سے نکلتے وقت مجھے پتا نہیں چلا کہ برٹر زندہ یا مارا گیا ہے، فوری طور پر چار سو پٹھانوں کا دستہ اورماڑہ اسٹیمر کے ذریعے فورا اورماڑہ بھیج دیا جائے اور جام آف لسبیلہ کو لکھے کہ وہ فورا فورس اورماڑہ بھیج دے کیونکہ کسی بھی وقت حملہ ہوسکتا ہے ، رستم خان نے سروے پارٹی کے پندرہ ہزار روپے اور تیس بندوقیں لوٹ کر بلوچ خان کے ساتھ تربت قلعے میں محراب خان گچکی کے پاس پہنچ گیا ، بلوچ خان کی قلعے میں پہنچنے سے باغی لشکر نے جشن منایا ، بلوچ خان نے سب کو اپنا حال حوال دیتے ہوکہا کہ کوئٹہ میں اے جی جی نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ شہداد گچکی کو رہا کیا جائے گا اور سند دے کر ناظم کو حکم دیا تھا کہ بھٹ کے قلعے کو میرے حوالے کیا جائے گا لیکن دونوں وعدوں پر عمل درامد نہیں ہوا اس لیے میں نے اپنے بیٹے محمد عمر کے زریعے اے جی جی کو پیغام بھیجا ہے کہ آج کے بعد کھبی کوئٹہ نہیں آوں گا اور ایک بلوچ کی حیثیت سے میرے پاس بغاوت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ، بلوچ خان کی منہ سے لفظ بلوچ سن کر کمبر کی آنکھیں چمک اٹھے ، عبدالکریم اے جی جی کو مسلسل ٹیگراف سے مکران کی حالات سے باخبر کررہا تھا ، عبدالکریم نے کہا کہ اس وقت کلاتک اور ناصر آباد کے قلعے ہمارے قبضے میں ہے لیکن مکران کی اکثریتی عوام محراب خان کے ساتھ ہے ، اے جی جی نے ٹیلی گراف کے ذریعے بتایا کہ میں نے والی خاران سردار نوروز خان کے بیٹے کو حکم دیا ہے کہ وہ پچاس سپائیوں کا دستہ ناظم کی فوری مدد کے لیے مکران بھیج دے ، عبدالکریم نے اے جی جی سے پیادہ فوج اور توپیں بھیج دینے کی درخواست کیا کیونکہ توپوں کے بغیر قلعوں کو مسمار نہیں کیا جاسکتا ، محراب خان اور کمبر قلعے کی برج پہ کھڑے مشاورت کررہے تھے ، کمبر نے کہا کہ ناظم اور عبدالکریم کے لیے سب سے بڑا سہولت ٹیلی گراف ہے ، کلاتک ، گوادر اور پسنی سے یہ لوگ مسلسل اے جی جی سے رابطہ کررہے تاکہ منصوبہ بندی سے ہمیں گھیر لے ، ہمیں ٹیلی گراف لائنوں کو کاٹ دینا چائیے ، رابطہ منقطہ ہونے سے یہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکے گے ، محراب خان نے کہا کہ پسنی اور کلمت میں میرے بندے موجود ہے انکے ذریعے لائنوں کو کاٹ دوں گا ، کمبر نے کہا کہ انہیں حکم دو کہ پسنی اور کلمت کے نائبوں کو قتل کرکے سب سرکاری ٹھکانوں کو لوٹ کر جلادو۔ (جاری ہے)