اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے، مرکزی بینک کے مطابق شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اور تجزیہ کاروں کی نظریں اس فیصلے پر ٹکی ہوئی تھیں۔
اسٹیٹ بینک میں گورنر مرکزی بینک جمیل احمد کی زیر صدارت مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں معاشی اشاریوں کا جائزہ لیا گیا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2024 میں ماہانہ مہنگائی کی شرح 20.7 فیصد رہی، اور پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ 60 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سے سرپلس رہا، جبکہ جولائی تا مارچ ترسیلات زر 9.3 فیصد سے بڑھ کر 21 ارب ڈالر پر پہنچ گئی۔
اسٹیٹ بینک نے آخری بار مانیٹری پالیسی ریٹ گزشتہ جون میں بڑھایا تھا، اس کے بعد سے چھ ہڈلز میں اسٹیٹ بینک نے پالیسی کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اور ریٹ 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار ہے۔
تجزیہ کاروں کوافراط زرمیں کمی کے پیش نظر شرح سود میں ایک فیصد تک کمی کی توقع تھی۔
اس وقت پوری دنیا کے مرکزی بینکوں کی نظریں امریکہ پر ہیں جہاں فیڈرل ریزور بینک آج امریکہ کے لیے شرح سود کا فیصلہ کرنے والا ہے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق مارکیٹ ماہرین کا خیال تھا کہ مرکزی بینک مانیٹری پالیسی میں کسی بھی نرمی کے اطلاق میں تاخیر کا انتخاب کر سکتا ہے، کیونکہ اس کی نظر بڑھتی ہوئی ترقی اور افراط زر کے دباؤ کو کنٹرول میں رکھنے کے درمیان توازن قائم کرنے پر ہے۔
کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ شرح میں کمی کی حمایت کرنے والے عوامل میں سی پی آئی افراط زر میں کمی، قابل انتظام کرنٹ اکاؤنٹ، مستحکم مقامی اور بین الاقوامی تیل کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ مستحکم کرنسی بھی شامل ہوسکتی ہے۔
بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کی ایک رپورٹ میں منقسم رائے شماری کے نتائج کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں تجویز کیا گیا کہ 52 فیصد جواب دہندگان آئندہ اعلان میں ’کوئی تبدیلی‘ کی توقع نہیں رکھتے، جب کہ بقیہ 48 فیصد کمی دیکھ رہے ہیں۔