عمران خان کے علاوہ بہت سی دیگر اہم شخصیات نے یہ اشارے دئیے ہیں کہ ملک کے لئے صدارتی نظام حکومت بہتر ہے یہ تصور فوجی طالع آزماؤں کے لئے تو مناسب ہے کہ جس کی وجہ سے اقتدار کا سرچشمہ صرف شخص واحد ہوتا ہے ۔ اس کو بادشاہ کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اکثر ایسے لوگ من مانی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں ان میں سرفہرست ایوب خان ، یحییٰ خان اور بعد میں جنرل ضیاء الحق تھے۔ ایوب خان کی پالیسی اور اختیارات کے یکجا ہونے کی وجہ سے بنگال ، بلوچستان اور سندھ کو شدید نوعیت کے شکایات پیدا ہوگئے اور آخر کار بنگالیوں نے تنگ آ کر علیحدگی کی راہ اختیار کی اور وہ ہم سے الگ ہوگئے ۔ یہ صرف اور صرف ایوب خان اور اس جیسے سوچنے والوں کی وجہ سے ہوئی ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ بنگال کے ساتھ انصاف ہوتاتو وہ پاکستان سے الگ کیونکر ہوتے۔ اگر ریاست میں ان کی جائز اور مناسب نمائندگی ہوتی تو ملک نہیں ٹوٹتا ۔ بانیان پاکستان کا وژن جمہوری ، وفاقی اور پارلیمانی پاکستان تھا اور ہے ۔ پاکستان کو مضبوط اور توانا بنانے کے لئے انہوں نے یہ نظام سوچ اور سمجھ کے بعد بلکہ سالوں غور و فکر کے بعد قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔ وفاق پر ان کا اتنا یقین تھا کہ وہ وفاق کے اندر رہتے ہوئے ،،آزاد اور خودمختار،، صوبوں کے حق میں تھے اور قرارداد پاکستان میں یہ درج کردیا گیا تھا کہ صوبے خودمختار ہوں گے اور کسی طرح بھی سرکاری ملازمین کے ماتحت اور زیر نگین نہیں ہونگے ۔ پاکستان کا واضح تصور ایک وفاقی ،جمہوری اور پارلیمانی نظام ہے اور اس میں بادشاہت یا صدارتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں اس نظام کو نافذ کرنے والے بانیان پاکستان کے خیالات اور افکار کی نفی کررہے ہیں اور وہ ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ صدارتی نظام کا مقصد صوبے اور صوبائی خودمختاری کوختم کرنا ہے اور ملک کو ایک وحدانی طرز حکومت کے طور پر چلانا ہے جس کو صوبوں کے ناخوش عوام کبھی بھی منظور نہیں کریں گے۔ آج کل کے دور میں صوبوں کو وفاق سے بہت زیادہ شکایتیں ہیں وفاق 18ویں ترمیم کو ابھی تک تسلیم نہیں کررہا سندھ اور بلوچستان کی شکایتیں بے شمار ہیں وفاقی ادارے صوبائی خودمختاری میں مداخلت کررہے ہیں بلکہ بعض اوقات عوام کو یہ تاثر ملتا ہے کہ صوبے کے منتخب نمائندے سرکاری ملازمین کے تابع ہیں جو وفاق پاکستان کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔ ہم یہ امید کرتے ہیں ملک کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں اس کوشش کے خلاف آواز اٹھائیں گے کہ ملک میں ایوب خان کے دور کا صدارتی نظام دوبارہ نافذ کیاجائے ۔یہ تمام سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ جدوجہد تھی اور کئی سالوں تک جلسہ اور جلوس نکالنے کے بعد یہ مطالبہ تسلیم کیا گیا کہ ملک سے آمرانہ شخصی حکومت کا خاتمہ کیاجائے اور ملک کو جمہوری ، پارلیمانی اور حقیقی وفاقی نظام کی طرف لے جایا جائے ۔ ہمارے بعض سیاسی رہنما اپنے اس مطالبے کی وجہ سے دہائیوں جیلوں میں رہے اور انہوں نے اذیتیں کاٹیں لیکن اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے اور آخر کار ایوب خان اور اس کی آمریت کو شکست ہوئی ۔ معلوم نے نہیں کس نے عمران خان کو یہ سبق دیا ہے کہ صدارتی نظام پاکستان جیسے وفاقی ملک کیلئے بہترین ہے جہاں پر پہلے سے صوبوں اور وفاقی اکائیوں کو مرکزی حکومت سے شدید شکایات ہیں بلکہ صوبے اس حد تک الزامات لگا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ قابل نفرت حد تک امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے اس امتیاز پر قابو پانے کے لئے سینٹ قائم کیا گیا ہے یا ایوان بالا جہاں پر وفاقی اکائیوں کی نمائندگی برابر ہے جہاں پر پنجاب اپنی آبادی کی بنیاد پرحکم نہیں چلا سکتا ۔ وفاق نے پی آئی اے کے معاملہ میں دیکھ لیا قومی اسمبلی میں مسلم لیگ بلکہ پنجاب نے اپنی عددی اکثریت سے بل کو قومی اسمبلی سے پاس کرا لیا مگر سینٹ نے اس کو مسترد کردیا جس پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا ۔ شخصی اور صدارتی نظام میں اس طرح کی جمہوری روایات موجود نہیں ہیں یہ صرف اور صرف بادشاہت ہے یا شخصی حاکمیت جو پاکستان کے وفاقی اکائیوں کو کبھی قبول نہیں ہوگا۔ اس سمندر میں بلوچستان جیسا چھوٹااور نظر انداز صوبہ تو غرق ہوجائے گا اور سمندرکے اندر اس کی لاش بھی تلاش کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
صدارتی نظام نا قابل قبول
وقتِ اشاعت : April 14 – 2016