سالوں گزر گئے کراچی میں سیکورٹی آپریشن جاری ہے ۔ البتہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے مگر دہشت گردی کے واقعات کے خطرات ہنوز باقی ہیں کیونکہ دہشت گرد اور طالبان ابھی تک خاموشی سے موجود ہیں کب کارروائی کریں ، کہاں کریں ، کس کو ٹارگٹ بنائیں، اس کی وجہ سے سیکورٹی کی صورت حال مکمل طورپر یقینی نہیں ہے تاہم آئے دن کے سیاسی ہڑتالوں سے جان تقریباً چھوٹ گئی ہے ۔ ایم کیو ایم والے حکومت کو بلیک میل کرنے کیلئے یہ حربہ استعمال کرنا تقریباً چھوڑ دیا ہے جس سے ملک کی معیشت کو روزانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا تھا ٹیکسوں کی وصولی میں اربوں روپے کی کمی واقع ہوتی تھی سب سے بڑھ کر روزانہ کمائی کرنے والا مزدور پریشان رہتا تھا ۔ کراچی شہر میں ایسے لاکھوں کی تعداد میں مزدور ہیں جو روزانہ محنت مزدوری کرکے روزی کماتے ہیں ایسے لوگ نان شبینہ کے محتاج رہتے ہیں اور آئے دن یہ ہڑتالیں ہوتی رہتی ہیں ۔حالیہ واقعات کے بعد متحدہ کے رہنماء سہمے سہمے اور گھبرائے نظر آئے شاید ان کو متعلقہ اداروں سے کوئی وارننگ ملی ہوگی کہ ہڑتال نہ کریں معیشت کا پہیہ جام کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ ایسی صورت میں ان کے خلاف بھرپور کارروائی ہوگی بلکہ کارروائی لیڈر شپ کے خلاف ہوگی جو ہڑتالوں کے لئے اپیل کرتے رہے اور ہڑتالوں کو منظم کرتے رہے ۔ اس لئے چند مواقع پر متحدہ کی ہڑتالیں چند گھنٹوں تک محدود رہیں اور شام ہونے سے پہلے بازار کھل گئے اب شاید متحدہ کو دیوار سے لگایا جا چکا ہے اور یہ مشکل نظر آتا ہے کہ وہ نئی صوت حال میں ہڑتال کی کال دیں۔ دوسری جانب عدالت عالیہ نے ایک حکم کے ذریعے الطاف حسین کے بیانات اور ٹی وی تقریروں پر پابندی لگا دی ہے جس سے کراچی اور دوسرے شہروں میں کشیدگی میں کمی آئی ہے ۔ حقیقی طورپر کراچی پاکستان کی معیشت کا شہ رگ ہے اس لئے کراچی میں معمولات زندگی کو کسی صورت میں معطل نہیں رہنا چائیے احتجاج کے ایک لاکھ طریقے ہیں احتجاج کرنے والے لوگ اپنا احتجاج حکام تک پہنچا سکتے ہیں سڑکیں اور کاروبار یا ٹریفک کی روانی معطل کیے بغیر۔ اس لئے حکومت کو چائیے کہ شہر کے اندر بعض ایسے مقامات کا تعین کرے جہاں پر لوگ احتجاج کریں اور معمولات زندگی متاثر بھی نہ ہو یہ عوام الناس اور ملکی معیشت کی ایک بڑی خدمت ہوگی جہاں پر لوگ احتجاج کر سکیں اور حکام ان کی داد رسی بھی اسی مقام پر کریں تاکہ لوگ پورے شہر کا نظام معطل نہ کر سکیں ۔ دوسری جانب ملک دشمن اور عوام دشمن طاقتیں بھی کراچی میں زبردست طریقے سے متحرک نظر آتے ہیں اور ان کی کوشش یہ ہے کہ ملک کے اندر ہر قیمت پر عدم استحکام ہوتا کہ وہ اپنے اپنے اہداف حاصل کرسکیں ۔صرف اس لیے سیکورٹی افواج اور سیکورٹی ادارے سرگرمی سے اس کوشش میں ہیں کہ ایسے لوگوں کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ ان کو گرفتار کرکے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں ۔ آئے دن کراچی میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوتے رہتے ہیں اور امن و امان کا مسئلہ زیر غور رہتا ہے خصوصاً شہر کے مختلف علاقوں میں امن وامان کا مسئلہ زیادہ بڑا نہیں ہے مثلاً کراچی کے علاقے میں لیاری گینگ وار کی سرپرستی کرنے پرسیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیاجارہا ہے یا ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی اختیارات جرائم پیشہ افراد کو کیوں سونپ دئیے ۔ جبکہ اس کھیل میں سرکاری اہلکار اس سے زیادہ سنگین الزامات کا سامنا کریں کیونکہ پولیس اور طاقتور انتظامی قوت کے بغیر گینگ وار کے لوگ اتنی بڑی تعداد میں قتل عام نہیں کر سکتے تھے۔ نہ یہ ان کے بس اور صلاحیت کی بات تھی کہ وہ لیاری سے انتظامیہ کو نکال دیتے یا پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والوں کی مزاحمت اتنی شدت سے کرتے۔ اس کی پس پشت ضرور سیاسی عزائم تھے جس کا پتہ لگانا ضروری ہے کہ طاقتور سرکاری اہلکار کون تھے ان کے کیا مقاصد تھے کن کے کہنے یا حکم پر انہوں نے گینگ وار کی پشت پناہی کی ۔ حکومت اور حکومتی اداروں کو یہ ضرور معلوم ہوگا کہ اصل مسئلہ کیا تھا اور اب یہ جاننا عوام کا حق ہے کہ لیاری میں کیا ہوا تھا۔ عوام کو ان اطلاعات اور سازشوں سے محروم نہ رکھاجائے ۔
پاکستان کی معیشت اور کراچی آپریشن
وقتِ اشاعت : April 15 – 2016