آج کل ہمارا ملک مختلف بحرانوں سے گزر رہاہے قومی معیشت کا حال بہت خراب ہے ۔ ملک 21000ارب روپے کامقروض ہو چکا ہے ۔ پوری بجٹ قرضوں کی ادائیگی اور وفاقی اخراجات پر خرچ ہوتی ہے ۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ معاشی معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آتے، ملک پر تاجر اور صنعت کار حضرات حکمران ہیں جو صرف اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کی حفاظت کررہے ہیں اور ان کو عوام الناس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ملک میں غربت میں اضافہ ہورہا ہے وفاقی وزیر کے مطابق ملک میں چھ کروڑ سے زائد عوام غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں ،وہ انتہائی غریب ہیں جو ملک کی کل آبادی کا 1/3حصہ ہیں یعنی ملک میں ہر تیسرا شخص بہت زیادہ غریب ہے۔ ملک کے اندر سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر سال پانچ ارب ڈالر سالانہ دشمن ملک بھارت جارہا ہے۔ کون اتنی بڑی رقم بھارت بھیجے گا۔ ظاہر ہے کہ غریب عوام اس میں ملوث نہیں ہیں حکمرانوں کے اندر ایسی کالی بھڑیں ہیں جو انتہائی طاقتور ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ ہر سال پانچ ارب ڈالر بھارت روانہ کرتے ہیں آج تک سیکورٹی ادارے اور حکومت یہ معلوم نہیں کر سکے کہ اتنی بڑی رقم کون سالانہ بھارت بھیج رہا ہے ۔ ایسی اطلاعات کے بعد یہ توقع رکھنا کہ پاکستان کی قومی معیشت بہتری کی طرف جائے گی یہ صرف خام خیالی ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سرکاری اہلکاراور وزراء کے اعلانات پر بھی شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ آیا ان میں حقیقت بھی ہے یا یہ صرف پروپیگنڈا کا حصہ ہیں اور لوگوں کو تسلی دینے کے لئے ہیں ۔ لہذا سب سے بڑا بحران معاشی ہے ہمیں ملک معاشی بحران سے نکلتا نظر نہیں آتا ۔دوسرا بحران دہشت گردی کا ہے اس کا جن ابھی تک قابو سے باہر ہے حکومتی اہلکاروں بلکہ وزراء کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ بڑے بڑے اور دوست ممالک پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتے ہیں ۔ فاٹا میں اتنی بڑی فوجی کارروائی اور کامیابیوں کے بعد بھی دہشت گردوں کی مرضی ہے جہاں چاہیں حملہ کریں ، لوگوں کو ہلاک کریں، خودکش حملے کریں یا بم کا دھماکہ کریں ۔ یہ ان دہشت گردوں کی صوابدیدپر ہے کہ کہاں اور کس جگہ کارروائی کریں۔ سفارتی طورپر ہم پوری دنیا سے الگ تھلگ ہوتے جارہے ہیں ایران واحد ملک تھا جو پاکستان کا دوست اور برادر ملک تھا ایران کے صدر کے حالیہ دورے کے دوران ہمارے سماج کے ایک طبقے نے ایران کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی اور میڈیا کو ایران کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کیا جس سے ایرانی رہنما ناراض ہوگئے ۔ سعودی عرب اور گلف ممالک کا پاکستان پر زبردست دباؤ ہے کہ وہ ایران کے خلاف محاذ جنگ میں عربوں کا ساتھ دے۔ پاکستان نے اس میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی ہے مگر جنگی معاملات میں ابھی تک حصہ لینا شروع نہیں کیا کیونکہ کشمیر متنازعہ ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ تناؤ بلکہ جاری سرد جنگ کسی بھی وقت باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔ اس لئے پاکستان یمن میں بالخصوص جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے سے قاصر ہے ۔ شاید ہمارے عرب اتحادیوں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے وہ اس پر مزید دباؤ نہیں بڑھا رہے ورنہ عرب ممالک کو یہ توقع ہے کہ پاکستان ایٹمی اسلحہ سے لیس ہو کر سعودی عرب اور مقدس مقامات کی حفاظت میں پیش پیش رہے گا۔ مغربی ممالک ، امریکا کی سربراہی میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف بھرپور انداز میں میڈیا کو استعمال کررہے ہیں انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایٹمی اسلحہ کو جنگ کے اگلے محاذوں پر رکھا گیا ہے یعنی دنیا بھر کو یہ باور کرانا ہے کہ ہمارا خطہ ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے ۔ اس وجہ سے ہمارا ملک دنیا کے توجہ کا مرکز بن چکا ہے اور بحرانوں سے نکلنے کے لئے کوئی حکمت عملی حکمرانوں کی جانب سے نظر نہیں آرہی ہے نہ ہی کسی مسئلے پر کوئی متحدہ سوچ موجود ہے ۔
پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات
وقتِ اشاعت : April 16 – 2016