حج اسلام کے پانچ فرض ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ حج صاحب استطاعت اور بالغ پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ یہاں پر صاحب استطاعت سے مراد وہ شخص جس کے پاس اتنی رقم اور جائیداد موجود ہو جس سے وہ حج کے اخراجات پوری کرسکے ،اس پہ زندگی میں ایک دفعہ اللہ تعالٰی کے گھر کی زیارت فرض ہے۔ حج کے فرض ہونے کے بہت سارے احادیث موجود ہیں اور قرآن شریف کی روشنی میں بھی اسکی اہمیت ثابت ہے۔ حضرت محمد مصطفیؐ نے اپنی زندگی میں ایک دفعہ حج کیا۔
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔
حج کے دوران بہت سارے سنگین حادثات ہوتے رہے ہیں جن ہزاروں انسان اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ حج ایک جسمانی مشقت ہے۔ ہرسال لاکھوں رجسٹر حاجی حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں غیر رجسٹر حاجی بھی پہنچ جاتے ہیں۔ 2024 میں بھی ساری دنیا سے 18 لاکھ رجسٹر حاجی بتائے جاتے ہیں۔ اور غیر رجسٹرڈ حجاج کرام کا ڈیٹا موجود نہیں۔ پاکستان سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار حاجیوں نے حج کی سعادت حاصل کی۔ اس سال پاکستانی حاجیوں کی اوسطاً رقم دس لاکھ ستر ہزار پاکستانی تھی۔ اور انڈیا میں اوسطا ایک حاجی پہ 13 لاکھ پاکستانی روپیہ خرچہ اور انڈیا سے 175000 ہزار حاجیوں نے فریضہ حج ادا کیا۔ اگر ہم 18 لاکھ حاجیوں کی رقم کو اوسطاً دس لاکھ پاکستانی روپے کا ساتھ تقسیم کریں تو billion eighty hundred One ہوتے ہیں۔ یہ رقم سعودیہ کے اکائونٹ میں براہ راست ساری دنیا سے منتقل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر حاجی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے ساتھ رقم لے جاتا ہے۔ یہ خرچہ ایک نارمل حج کے ہیں۔ اس کے علاوہ پرتعیش اور لگژری حج پیکجزپر پچاس لاکھ پاکستانی روپیہ سے بھی زائد خرچہ آتا ہے۔
سعودیہ اب تیل کے بعد مذہبی سیاحت پر بھی انحصار کررہا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان سعودیہ میں انقلابی تبدیلیاں کررہے ہیں۔ حج 2024 کے انتظامات کو دیکھنے کے لیے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز خود پہنچ گئے اور بہتر انتظامات اور سہولیات کی تاکید کی!
سعودی حکام کے مطابق ہر سال کروڑوں روپے حج کے انتظامات پہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ مکہ سے لے کر عرفات کے میدان تک ہر جگہ CCTV کیمرہ نصب کئے گئے ہیں۔ ہزاروں ایمبولینس اور لاکھوں سیکورٹی اہلکار اور ہر ملک کے لاکھوں رضاکار موجود ہوتے ہیں۔ ویسے تو مکہ سے لے کر عرفات کا میدان 23 کلو میٹر بنتا ہے۔ مگر جگہ جگہ راستوں میں تبدیلی اور مصنوعی رکاوٹ پیدا کرنے کی وجہ سے یہ راستہ طویل اور کھٹن بنتا جارہا ہے۔ سعودیہ حکومت اپنی طرف سے تو بہتر سوچ کر یہ اقدامات اٹھا رہی ہے، مگر گرمی کی وجہ سے حاجیوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خبر رساں ایجنسیوں نے سفارت کاروں اور حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس دفعہ شدید گرمی اور حبس سے 900 سے زیادہ حجاج کرام جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ان جاں بحق ہونے والوں میں کم از کم 600 مصری، 144 انڈونیشیائی، 68 ہندوستانی، 60 اردنی، 35 پاکستانی، 35 تیونسی، 11 ایرانی اور تین سینیگالی شامل ہیں۔سعودی سرکاری ٹی وی نے کہا کہ پیر 17 جون کو مکہ مکرمہ کی گرینڈ مسجد میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گئی تھی۔
اتنی زیادہ تعداد میں حجاج کرام کی ہلاکت ایک تشویشناک بات ہے۔ اس بابت اب تک سعودی حکومت کا کوئی آفیشل اور سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔ اس بابت سوشل میڈیا پہ بہت سارا مواد موجود ہے، جسکی تصدیق و تردید ہونا باقی ہے۔ حجاج کرام کے مطابق اس دفعہ سعودیہ حکومت کے انتظامات ناقص تھے اور جگہ جگہ رکاوٹوں کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ ایک طرف سعودی عرب تیزی سے دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی قوت بنتا جارہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے دنیا کے سرفہرست ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا میگا پراجیکٹ یعنی “نیوم سٹی ” کی تعمیر جیسے منصوبوں کو شروع کرنے والا ملک ہے تو دوسری طرف ایسی غفلت اور ناقص انتظامی بندوبست، جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے ۔ضروری امر یہ ہے کہ اس تناظر میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مرتب کی جائے اور انتظامی غفلت کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے اندوہناک واقعات سے بچا جا سکے۔
حجاج کرام کی شہادتیں؛ سعودی انتظامیہ کی غفلت اور ناقص انتظامات
وقتِ اشاعت : June 22 – 2024