|

وقتِ اشاعت :   June 23 – 2024

دستیاب دستاویزات کے مطابق بلوچ ورنا وانندہ گل کوئٹہ کا قیام 13 اگست 1962 کو عمل میں لایا گیا جس کے پہلے صدر شعیب گولہ اور سیکریٹری جنرل آغا عبدالخالق تھے جبکہ اہم اور سرگرم اراکین میں صدیق آزات، صورت خان مری، امیر الملک مینگل، حکیم لہڑی، خیرجان بلوچ، کریم دشتی و دیگر شامل تھے۔
ورنا وانندہ گل کے پہلے قائمقام صدر حکیم بلوچ تنظیم کے قیام کے اغراض و مقاصد کے متعلق فرماتے ہیں کہ بلوچ طالب علموں کی اس طلبا تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد بلوچ طالب علم اور نوجوانوں میں قومی سوچ اور سماجی شعور کو بیدار کرنا اور انہیں اپنی قومی شناخت اور تشخص کے بارے میں آگہی دینا تھا۔ ان میں یہ احساس اجاگر کرناتھا کہ وہ کون ہیں۔

ان کے کیا حقوق ہیں اور ان پر کس قسم کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
قومی تشخص اور شناخت کی جنگ میں زبان، ادب اور ثقافت اہم اور بنیادی اوزار سمجھے جاتے ہیں ثقافتی استحصال کے خلاف جد و جہد کرنا ایک اہم قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔

بنا بریں ورنا وانندہ گل نے بلوچ طالب علموں کے تعلیمی حقوق کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی تشخص کے تحفظ اور ثقافتی استحصال کے خلاف جد و جہد کو اپنی آئینی اور تنظیمی ترجیحات میں سرفہرست رکھ کر ادبی و ثقافتی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے ’’بلوچی لبزانکی دیوان‘‘ کے نام سے ایک ادبی سرکل 1962 میں قائم کی جس کے پلیٹ فارم سے ہر مہینے ادبی بیٹھک ہوا کرتی تھی جس میں تخلیقی ادب کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان و ادب کے جملہ مسائل پر بھی سیرحاصل گفتگو اور بحث ہوا کرتی تھی جس کے نیتجے میں نہ صرف بلوچی زبان و ادب کے اہم مسائل جیسے اِملا، رسم رالخط، تنقید، ادبی اصطلاحات، جدید نثری ادب و اصناف اور ترجمے کے مسائل بھی زیر بحث آتے رہے۔

جبکہ ماہنامہ اْلس کوئٹہ کے ایڈیٹر امان اللہ گچکی بلوچی لبزانکی دیوان میں پیش کئے گئے ان ادبی تخلیقات کا انتخاب کرکے انہیں ماہنامہ اْلس میں شائع کیا کرتے تھے۔

جس سے لکھنے والوں کی ایک کھیپ اْبھر کر سامنے آئی جنہوں نے ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں بلوچی زبان و ادب کی بھرپور ترجمانی کی۔
ورنا وانندہ گل نے پہلی دفعہ 1964 میں کوئٹہ میں ایک بہت بڑا ثقافتی شو منعقد کیا جس میں بلوچی زبان کے فنکاروں اور موسیقاروں سمیت عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ اس ثقافتی شو کے بعد ورنا وانندہ گل کی مقبولیت اور شہرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ورنا وانندہ گل نے اپنے قیام کے تقریباَ پانچ سال بعد یعنی 1967 میں ’’بولان نامہ‘‘ کے نام سے ایک ادبی پرچے کا اجراء کیا جس میں نہ صرف ادبی تخلیقات اور زبان و ادب کے جملہ مسائل کو تحریری صورت میں پیش کیا گیا بلکہ ایک معیاری ادبی پرچے کی بنیاد بھی رکھی گئی۔

بولان نامہ کے پہلے شمارے میں بلوچی و براہوئی زبان کے انتہائی اہم و سرکردہ ادیبوں کے نگارشات اور تخلیقات کو قابل اشاعت بنایا گیا جس میں عبداللہ جان جمالدینی، محمد حسین عنقا، صورت خان مری، امان اللہ گچکی، حکیم بلوچ، نیک محمد بزدار، حاجی عبدالقیوم بلوچ، گل خان نصیر، ملک پناہ، عطا شاد، عبدالرحمن براہوئی، گل بنگلزئی، ملک رمضان و دیگر شامل ہیں۔
دوسری طرف کراچی میں زیر تعلیم بلوچ طلباء نے ورنا وانندہ گل کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اکتوبر 1962 میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایجو کیشنل آرگنائزیشن کے نام سے بھی ایک بلوچ طلباء تنظیم قائم کی جس کے پہلے صدر چنگیز عالیانی اور سیکریٹری جنرل رحیم جانی تھے۔

اہم اراکین اور قائدین میں سردار فتح بزدار، غفارندیم، حکیم بلوچ، رحیم ظفر، اسلم گچکی، طاہر محمدخان، نعمت اللہ گچکی، بیزن بزنجو، غلام رسول مگسی، یعقوب بزنجو و دیگر شامل تھے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن نے انہی خطوط پر اپنی تنظیم کی سمت کا تعین کرتے ہوئے ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھ کر ادبی و ثقافتی شعور کو فروغ دینے کے لیے’’بلوچی دیوان کی روایت رکھ کر جامعہ کراچی کو اپنی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جہاں ہر سال ’’بلوچی دیوان‘‘ کے نام سے ایک بہت بڑے ثقافتی میلے کا انعقاد کیا جاتا تھا جس میں بلوچ ثقافت اور بلوچی موسیقی کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ’’پجّار‘‘کے نام سے ایک رسالہ نکال کر بلوچی ادب و ثقافت کو ادارتی صورت میں متعارف کرانے کی اینٹ رکھ دی گئی جس میں بلوچ شعراء کے منتخب کلام کے ساتھ ادبی و سیاسی مضامین اور نگارشات بھی شائع کیے جاتے تھے۔ 1967کے سالانہ ’’ بلوچی دیوان‘‘ کے موقع پر حسب سابق بلوچی زبان، ادب اور ثقافت کا ایک تعارف ’’پجّار‘‘ کی صورت میں پیش کیا گیا جو دو حصوں نثری اور شعری پر مشتمل تھی نثری حصے میں امیر الملک مینگل، میر مٹھا خان مری، غفارندیم، رحیم ظفر کے جبکہ شعری حصے میں سید ھاشمی، عطا شاد، ملا فاضل، مراد ساحر کے اشعار شامل اشاعت تھیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے زیر اہتمام پہلا سالانہ ’’بلوچی دیوان‘‘ 1963 میں منعقد ہوئی جس کی صدارت اردو زبان کے معروف شاعر فیض احمد فیض نے کی جس میں انہوں نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’’ یتیم لہو‘‘ پہلی دفعہ بی ایس او کے اس ثقافتی شو میں پڑھی جو اس ریاستی جبر کا بھرپور اظہار تھا جو جنرل ایوب خان کی زیر کمان بلوچ گلزمین پہ جاری تھا۔

یہ ثقافتی شو کراچی یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلا ثقافتی شو تھا جس میں کراچی شہر میں آباد تمام اقوام کے طلبا و طالبات کے علاوہ جامعہ کراچی میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبہ و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

بی ایس او نے اس ثقافتی شو کے ذریعے نہ صرف شہر کراچی کے باسیوں کو بلکہ حاکم وقت کو بھی یہ پیغام دیا کہ بلے بلوچ غلام، محکوم، پسماندہ اور غربت زدہ ہیں لیکن وہ تہذیب اور کلچر کے حوالے سے انتہائی شروت مند، امیر اور باکمال لوگ ہیں۔ وہ شعر، ادب اور موسیقی سے انتہائی محبت کرنے والے ہیں وہ ایک اعلیٰ ثقافتی ورثے کے مالک ہیں بلوچ فنکار اور گوّیہ ان کے قومی سفیر ہیں۔

جبکہ دوسرا سالانہ بلوچی دیوان 1964 میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے سربراہ غفارندیم کی زیر صدارت جامعہ کراچی میں منعقد ہوئی جس کے مہمان خاص کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اشتیاق احمد قریشی تھے جہنوں نے اپنے خطاب میں جامعہ کراچی میں ہرسال تمام بلوچ طالب علموں کو داخلہ دینے کے ساتھ ساتھ کراچی یونیورسٹی میں بلوچی زبان و ادب کا ایک الگ شعبہ قائم کرنے کا بھی اعلان کردیا۔
جامعہ کراچی میں بی ایس او کے زیراہتمام ہونے والے ادبی و ثقافتی تقریبات میں بلوچستان اور کراچی سے تعلق رکھنے والے بلوچ فنکار فیض محمد فیضک، مرید بلیدی، جاڑوک بلوچ، استاد شفیع بلوچ، استاد ستار بلوچ و دیگر فنکاروں نے شرکت کرکے اپنی سریلی آواز اور بلوچ شعرا کے تخلیق کردہ قومی اشعار سے نہ صرف بلوچ نوجوانوں میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کیا بلکہ سامعین و حاضرین مجلس کو بھی خوب لطف اندوز کرتے رہے۔ بی ایس او نے اپنی ان ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کے ذریعے بلوچ ثقافت اور بلوچی لوک ادب اور موسیقی کو بہترین طریقے سے اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

خاص طور پر ساحلی علاقوں کے مشہور لوک رقص ’’ لیوا ‘‘ نے تو ان پروگراموں کی رونق کو مزید دوبالا کردیا تھا۔ دوسری طرف بی ایس او نے ان بلوچی دیوانوں کے ذریعے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں نہ صرف بلوچی زبان، ثقافت اور موسیقی کو متعارف کروایا بلکہ بلوچ اور بلوچستان کے سیاسی، قومی اور ثقافتی سوال کو بھی ملکی و بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
بعد ازاں بی ایس او کی جانب سے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے لبزانک، بام، گروک، سنگت اور سگار جیسے اہم ادبی پرچوں اور رسائل کے ذریعے بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں اہم اور نمایاں کردار ادا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس ضمن میں حالیہ ادوار میں سب سے نمایاں کردار بی ایس او آزاد یا متحدہ کا رہا ہے۔ جس نے اس کا آغاز 2004 میں ’سگار‘ نامی ایک معیاری ادبی رسالے سے کیا جو وقتاَ فوقتاَ تنظیم کے زیر اہتمام شائع ہوتا رہا جس میں بلوچی اور براہوئی زبان و ادب اور مختلف سیاسی و علمی موضوعات پر مضامین اور ادبی تخلیقات کو شامل اشاعت بنایا گیا ہے۔ مزید برآں تنظیم نے بلوچی زبان میں مختلف سیاسی و ادبی لٹریچر کو بھی کتابی شکل میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ جبکہ پہلی دفعہ بلوچ ثقافتی دن منانے کی بنیاد بھی رکھی۔

بعدازاں بی ایس او آزاد پر پابندی کے نتیجے میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) نے اس تسلسل کو آگے بڑھایا، ’’نوشت ‘‘کے علاوہ پہلی دفعہ بچوں کے لیے ایک الگ ادبی رسالی ’’گام ‘‘ کا اجراء کیا گیا جو ادبی تربیت کا ایک بنیادی نرسری جانا جاتا ہے جس کے بلوچی زبان و ادب پر انتہائی دورس اور مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
جبکہ اسی اور نوے کی دہائیوں میں بی ایس او نے ’’بلوچی دیوان ‘‘ کے نام سے بلوچی مشاعرہ اور محفل موسیقی کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس سے نہ صرف بلوچ طلبا اور نوجوانوں میں ادبی اور ثقافتی شعور کو منظم کرنے میں کافی مدد ملی بلکہ مجموعی طور پر بلوچی زبان پر اس کے انتہائی مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے۔

مند سے لیکر لسبیلہ تک، زہری سے لیکر بارکھان تک ’’بلوچی دیوان‘‘ نے اپنے مثبت اثرات اور حسن بکھیر دئیے۔ چنانچہ بی ایس او کے اس ادبی، علمی اور ثقافتی کردار اور خدمات ایک علمی تحقیق کے متقاضی ہیں تاکہ بلوچ قومی تشخص اور شناخت کی جد و جہد میں اس کے اس تاریخی کردار اور مثبت پہلو کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوسکے۔

مزید برآں موجودہ نوآبادیاتی دور میں بلوچ ثقافتی استحصال کے خلاف ثقافتی جد و جہد کو مزید منظم کرنے میں مدد مل سکے۔