عوام کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے جو عوام تک تمام خبروں کو پہنچاتی ہے مگر میڈیا کی کچھ غلطیوں کے باعث عوام آج بھی پرنٹ خاص کر الیکٹرونک میڈیا سے شدید مایوس نظر آتی ہے کیونکہ ان کے بنیادی مسائل کو بہتر انداز میں کوریج نہیں دی جاتی بلکہ اس سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی تقاریر اور پریس کانفرنسز کو گھنٹوں تک لائیونشریات میں دکھا ئی جاتی ہے اور عوام مجبور ہوکر ٹی وی چینلز کو دیکھتے ہیں‘ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی باتوں میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی مگر اُس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ الزامات کی بھرمار ہوتی ہے پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں جس سے عوام صرف لطف اٹھاتے ہیں اور سیاسی جماعتوں سے وہ شدید مایوس ہوجاتے ہیں اور یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ عوامی مسائل میڈیا سے اوجھل نظر آتے ہیں صرف فوقیت شخصیات کو دی جاتی ہے انہی شخصیات کی تقاریر اور پریس کانفرنسز کو کرنٹ افیئر کا حصہ بنایا جاتا ہے پھر انہیں آپس میں لڑتے سمیت گالی گلوچ تک دیکھنے کو ملتا ہے جو کسی تفریح سے کم نہیں ۔اس سے آگے اگر دیکھا جائے تو جس پر الزامات لگائے جاتے ہیں بجائے اس کے مؤقف کو فوری طور پر لینے کے چار افراد ٹی وی پر نظر آتے ہیں اور اسی پر ایک دوسرے پر دل کی بھڑاس خوب نکالتے ہیں جو اُن کا اپنا ہی سیاسی ایجنڈا ہوتا ہے نہ کہ عوام کی ہمدردی کیلئے وہ بولتے ہیں کیونکہ جو الزام لگاتے ہیں اُن کی ماضی بھی اسی طرح ہی رہی ہے‘ سونے پہ سہاگہ آج کل کچھ ایسے تجزیہ نگار دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں کرکٹ پر تبصروں سے لیکر خارجہ پالیسی تک عبور حاصل ہے اور ہر ایشو پر بہت کچھ بول جاتے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہی ہوتا ہے اور حقیقی تجزیہ نگاروں کو یہ مواقع کم ہی ملتے ہیں۔ میڈیا کا مشاہدہ کیاجائے تو ماضی کی نسبت آج میڈیا اپنے فرائض سے مکمل غافل دکھائی دیتی ہے‘ ایڈیٹرویل پالیسی مکمل تبدیل ہوچکی ہے‘ انویسٹی گیشن کے بغیر بہت سی رپورٹس میڈیا پر نشر ہوتی ہیں اور وہ حقائق کی مکمل جانکاری سے بری الذمہ ہیں‘ ہاں البتہ میڈیا صرف سیاسی جماعتوں کے پیچھے آج کل بہت لگی ہوئی ہے جس سے میڈیا کے امیج پر خاصا اثر پڑرہا ہے۔ کچھ برس قبل میڈیا اس قدر مدرپدر آزاد تھی کہ ہر ادارے کو لیکر وہ خبرسمیت پروگرامز کرتے رہتے تھے میڈیا کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ہر خبر کو سنسنی خیز انداز میں سامنے لاتے تھے مگر ایک واقعہ نے میڈیا کی مدر پدر آزادی کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا کہ آج تک میڈیا اپنی پالیسی بنانے سے قاصر نظر آتی ہے ‘المیہ یہ ہے کہ اب حقائق کو بھی سامنے لانے کیلئے انہیں ہزار بار سوچنے کی ضرورت پڑتی ہے جو خود میڈیا کے اندر رہنے والے صحافی حضرات کیلئے ذہنی کوفت سے کم نہیں‘ تمام میڈیا گروپس اگر مل بیٹھ کر پیمرا کے ساتھ ایک بہترین میڈیا پالیسی مرتب کرتے ہوئے خبر کی نشرسمیت رپورٹنگ ،کوریج اور کرنٹ افیئرز کے پروگرامز کو بہترانداز میں چلانے کیلئے کوششیں کریں تو یقیناًایک بہترین راستہ نکل سکتا ہے جس سے نہ صرف میڈیا کا ایک بہترین امیج بن سکے گا بلکہ عوام کو بہترین آگاہی کا موقع بھی ملے گا جو سیاسی شعور سے لیس ہوکر اپنے مستقبل کے فیصلے بہتر انداز میں کرسکیں گے۔ ایسا ہونے کے آثار تو نظر نہیں آرہے تبدیلی ملک کے ساتھ اداروں میں بھی آنے کی اشد ضرورت ہے‘ میڈیا کی ماضی میں مدر پدر کی آزادی اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ مگر اب بھی کوئی خاص پالیسی نظر نہیں آرہی جس کی ضرورت ہے۔میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے جو عوام کو نہ صرف سیاسی شعور دیتا ہے بلکہ ملکی وبیرونی مسائل سے آگاہی فراہم کرتی ہے جس سے عوام کو ملک سمیت دنیا بھر کے بارے میں آگاہی ملتی ہے مگر اب بھی ملک سمیت دنیا بھر میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جو مسائل جنم لے رہے ہیں آج بھی عوام اس سے بے خبر ہیں عوام تک خبر کی رسائی کی ذمہ داری میڈیا پر عائد ہوتی ہے جس کی امید بھی کی جاسکتی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے میڈیا کو غیر جانبدارانہ طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس کے وقار پر آنچ نہ آئے۔
میڈیا کی مدر پدرآزادی….؟
وقتِ اشاعت : April 21 – 2016