|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2016

ملک بھر میں دہشت گردی کی لہر میں کافی کمی آنے کے بعد بھی معاشی حوالے سے تبدیلی میں فی الحال اتنی بہتری نہیں آئی ہے‘ کراچی میں قیام امن کے بعد تاجروں میں موجود خوف کی فضاء ختم ہوگئی ہے نہ ختم ہونے والے ہڑتالوں کے سلسلے نے بھی دم توڑ دیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ کراچی میں کاروبار زندگی اب معمول کے مطابق چل رہی ہے تاجر بلاخوف اپنے کاروبار میں مشغول ہیں جس کی بڑی وجہ امن کا قیام ہے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں کامیابی ہے‘ مگر آنے والے چیلنجز سے مزید نمٹنے کیلئے ملک بھر میں قیام امن کیلئے نہ صرف طاقت بلکہ سیاسی طرز پر بھی بات چیت کی جائے جس سے دیرپا امن قائم ہوسکے‘ بلوچستان میں کئی دہائیوں سے سیاسی حوالے سے جنگی ماحول نے جنم لیا ہر نئی حکومت نے بلوچستان کے مسائل کا ذمہ دار ماضی کے حکمرانوں کو ٹھہرایا مگر سنجیدگی سے مذاکرات کے حوالے سے حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی جس سے دونوں فریقین کے درمیان بہتر انداز میں بات چیت کا عمل آگے بڑھ سکے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اس منصب پر خاص طور پر بٹھانے کا مقصد یہی تھا کہ وہ جلاوطن بلوچوں سمیت مسلح گروپوں کے ساتھ ڈائیلاگ کرکے بلوچستان میں امن قائم کرے مگر چند کوششوں کے بعد مذاکرات ناکام ہوئے اور اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔ اب موجود ہ حکومت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قیام امن کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو بھی آگے بڑھائے کیونکہ اِس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے ۔میاں محمدنواز شریف کا بھی دیرینہ خواب یہی رہا ہے کہ بلوچستان میں امن قائم کرنے کیلئے سب کو ساتھ لیکر چلنا ہے جس کا اظہار وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کئی بار کیا ہے‘ اب وقت ہے کہ بلوچستان میں سیاسی حوالے سے تمام جماعتوں کو ایک پیج پر لاکر اس عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے اور قبائلی حوالے سے بھی بھرپور کوششیں کی جائیں تاکہ سنجیدگی کے ساتھ یہ عمل شروع ہوسکے اور اس کے مثبت نتائج نکلیں۔ بلوچستان اس وقت بہت اہمیت کا حامل ہے خاص کر سی پیک کی وجہ سے بہت سے معاشی اہداف کو حاصل کیا جاسکتا ہے خاص کر ملکی وغیرملکی سرمایہ کار بھی اس میں خاص دلچسپی لے رہے ہیں ۔ بلوچستان کی ترقی میں سب سے پہلے بلوچستان کے عوام کو شریک دار بنانا انتہائی ضروری ہے تاکہ اُن کی معاشی زندگی میں تبدیلی آئے کیونکہ ماضی میں بھی بلوچستان کو پسماندہ رکھا گیا جس کی وجہ سے شورش جیسے حالات پیدا ہوئے مگر اب حالات اس کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ سی پیک خطے کیلئے ایک گیم چینجر ہے جس کی کامیابی یہاں کے عوام کے اعتماد کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔ بلوچستان میں سیاسی مذاکرات کی کامیابی بھی بلوچستان کے حالات کو یکسر بدل کر رکھ دے گی جس سے ایک نیا سورج طلوع ہوگا جس کا انتظار نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے ہر باشندے کو ہے کیونکہ بلوچستان پر روا رکھے گئے زیادتیوں کے سلسلے آج بھی جاری ہیں جسے ختم کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی جاسکتی ہے اس کیلئے عوام کے اندر اعتماد اور بہترین سیاسی فضا کی ضرورت ہے اور اس کو کامیاب کرنے کیلئے حکومت پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مشکل عمل کو آسان بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے تاکہ سیاسی حوالے سے بلوچستان میں تبدیلی آئے جس کے ساتھ یہاں کی خوشحالی بھی جڑی ہوئی ہے۔ماضی کے حکمرانوں نے صرف معافی اور چند پیکجز دے کر معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کا خمیازہ آج تک بھگتا جارہاہے مگر خطے میں بدلتی سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کو جنگی حالات سے بچانے کیلئے بہترین پالیسی بنائیںآج دنیا بھر میں صرف طاقت کو ہی ہتھیار نہیں سمجھا جارہا بلکہ مذاکرات کو انتہائی اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ یہ ایک واحد ہتھیار ہے جو امن اور کامیابی کی کنجی ہے جس کی کئی مثالیں آج بھی موجود ہیں کہ امن کیلئے سب سے پہلے مذاکرات کو ترجیح دی گئی اور یہی وجہ ہے کہ جہاں جنگی حالات انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کرتے گئے وہاں بات چیت کے عمل کو انتہائی اہمیت دی گئی جو کامیاب رہی‘ موجودہ حکومت سے بھی یہی توقع کی جارہی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے سیاسی حوالے سے اقدامات اٹھائے تاکہ یہ کریڈیٹ موجودہ حکومت کو مل سکے۔