جونہی آپ مین پوسٹ آفس کوئٹہ کے اندر داخل ہوتے ہیں پوسٹ آفس کی چاردیواری کے اندر عمارت کے سامنے بنا ہوا ایک سٹینڈ نظر آتا ہے اس اسٹینڈ کو پانچ خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے ہر خانے میں ایک رائٹر (یعنی منشی) بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ پرانے زمانے میں جب کوئی خط لکھوانا یا پڑھوانا ہوتا تھا تو منشی کی خدمات حاصل کی جاتی تھی۔ اب چونکہ لوگ پڑھ لکھ گئے تو منشیوں کی ضرورت بھی باقی نہ رہا۔روزگار تو کرنا ہے روزگار کے ذرائع ڈھونڈ لئے جاتے ہیں۔ پوسٹ آفس کے اندر پیکنگ کاکام اب منشی لوگ کرنے لگے ہیں۔خانوں میں بیٹھے انہی کے درمیان ایک روفن فرانسس ہیں عمر رسیدہ پر یادداشت اور کام جوانوں جیسا۔ وہ اپنے خانے میں بیٹھا پیکنگ کا کام کرتا ہے۔ کسٹمر کو کوئی پارسل بھجوانا ہو تو ڈاکخانہ انتظامیہ انہیں اسی اسٹینڈ کی جانب بجھواتے ہیں۔ فرانسس ہفتے کے پانچوں دن اپنا روزگار کرنے ڈاکخانہ کا رخ کرتا ہے۔اپنی زمہ داری صبح 9بجے سے شام 6بجے تک سرانجام دیکر گھر کو واپس روانہ ہوتا ہے یہی پیکنگ کا کام پچاس روپے کے عوض کرتا ہے۔ پیکنگ کے کے لئے کاٹن، پلاسٹک اور کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔ روفن فرانسس گزشتہ 15سال سے یہی پیکنگ کا کام کرتے ہیں ریٹائرمنٹ سے قبل وہ محکمہ ڈاکخانہ میں بطور ٹیلی گرافر خدمات سرانجام دیتے تھے۔ انہوں نے 1962کو ادارے کی ٹیلی گراف سیکشن میں اپنی کیریئر کا آغاز بطور وائے پین ماہوار 48روپے سے شروع کیا۔وہ گزری ملازمت کو یاد کرکے کہتے ہیں ’’ شروع میں رابطے کا واحد ذریعہ ڈاکخانہ ہوا کرتا تھا۔ لوگ خط و کتابت کے لئے یہی ذریعہ استعمال کرتے تھے یا زیادہ ضروری ہوتا تھا تو ٹیلی گرام بھجواتے۔ اس زمانے میں ٹیلی فون کی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ تو ٹیلی گراف آفس سے ٹیلیفون ٹرنک کال بک کی جاتی تھی جس سے وہ ایک دوسرے سے بات کیا کرتے تھے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو انہیں ترقی دے کر میسنجر سیکشن میں لایا گیاجس کے بعد تنخواہ میں اضافہ کر دیا گیا۔
اس زمانے میں وہ خط یا پیغام پہنچانے کے لئے اپنی سواری استعمال کرتے تھے اور کلومیٹر کے حساب سے انہیں اضافی پیسے ملتے تھے۔ اور ساتھ میں ان سے ٹیلی پرنٹر اور ٹیلی گرافی کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ وہ ٹیلی گراف سیکشن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ 24گھنٹے کھلی رہتی تھی جہاں سے پیغامات بھیجے جاتے تھے یا موصول ہوتی تھیں۔ جن میں غم اور خوشی کی اطلاعات ہوتی تھیں۔۔’’اس زمانے میں کوئٹہ شہر کو ڈاک کی تقسیم کے حوالے سے چار زون میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ ڈاک اور ٹیلی گرام پہنچانے کا کام ہم ہی کرتے تھے۔ پیغامات کے ساتھ ساتھ انکے سلپس بھی لگی ہوتی تھیں ان سلپس پر متعلقہ افراد وصولی کے دستخط کر اکے انہیں واپس کرتے تھے وہ ہمیں واپس دفتر جمع کروانا پڑتے تھے۔ تنخواہ اور معاوضے کو ملاکر ماہانہ 100یا 110روپے ہواکرتے تھے‘‘۔
تعلیم تو انہوں نے میٹرک تک حاصل کی ہے پر جملہ اداکرتے وقت انگلش الفاظ انکی زبان سے جاری ہو تے ہیں۔ پیکنگ کرتے اور لکھتے وقت وہ کبھی جلد بازی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھتے وقت ان کے ہاتھوں سے سپیلنگ کی غلطی نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے وہ کہتے ہیں ’’ اس زمانے میں ٹیلی پرنٹر استعمال کرتے وقت وہ ہر الفاظ کے سپیلنگ اپنے سینیئر سے پوچھ لیا کرتے تھے۔ آج تک وہ الفاظ بھولے نہیں۔ اسلئے غلطی کی گنجائش بہت کم ہو تی ہے‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جب ٹیلی فون نہیں ہوا کرتے تھے تو لوگ پیغام پہنچانے کے لئے ٹیلی گرام کا سہارا لیا کرتے تھے۔ اس وقت کا ڈاک کا نظام بھی کافی بہتر تھا۔لوگ ڈاک خانے کے ذریعے سے منی آرڈر ٹیلی گراف کے ذریعے بھی بھجواتے تھے۔ وہ گزرے ہوئے وقت کو یاد کرکے کہتے ہیں کہ پچھلے زمانے میں لوگوں کے پاس سہولیات کم تھیں پر خوشحالی تھی پر آج سہولیات زیادہ ہوگئی ہیں لیکن خوشحالی ختم ہو گئی۔ اب بڑی بڑی خواہشوں کے پیچھے انسان کے اندر کرپشن کا مادہ پیدا ہو گیا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ نئی جدتیں آگئیں ٹیلیفونک نظام بہتر ہو گیا۔ 1995کو ادارے نے ٹیلی گراف کا سیکشن ختم کر دیا تو روفن فرانسس 5سال پہلے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے تھے۔ اس نے دس سال تک مختلف اداروں کے ساتھ بحیثیت کمپیوٹر آپریٹر کام کیا وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی پرنٹر اور کمپیوٹر کی بورڈ کے درمیان کوئی فرق نہیں دونوں میں نو انگلیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ایک انگلی spaceبٹن کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو کام ٹیلی پرنٹر کے ذریعے کیا جاتا تھا وہ اب کمپیوٹر کی بورڈ کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ وہ سیکھنے کے عمل کو کتاب کی دنیا سے باہر بھی دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہے کہ زندگی انسان کو تجربہ سکھاتی ہے ۔وہ اپنے رب کا شکریہ اداکرکے کہتا ہے ’’ ہاتھ پاؤں سلامت ہیں کوئی بیماری نہیں تو مالی معاملات کو چلانا مشکل کام نہیں‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ ایک ہوائی روزی ہے کبھی ہوتی ہے تو کبھی نہیں۔
ٹیلی گرام کا زمانہ تو چلا گیا۔ پر روفن فرانسس نے اپنا ذریعہ معاش پیکنگ کے کام میں ڈھونڈ نکالا کل جہاں روفن فرانسس ٹیلی گرافر کہلاتا تھا پر آج رائیٹر (منشی )کہلاتا ہے۔ جہاں روفن فرانسس کا اسٹینڈ ہے اسکے بالمقابل ڈبل منزلہ بلڈنگ پر ایک گھڑی لگی ہوئی ہے گھڑی کے ساتھ 1939لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔ غالباً اس عمارت کا قیام ’’ قیام پاکستان‘‘ سے قبل عمل میں لایا گیا تھا جبکہ اسکے نیچے “Post & Telegraph Office” لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اس بلڈنگ سے روفن فرانسس کی پرانی یادیں وابسطہ ہیں۔ وقت نے گو کہ انکے بالوں کو سفید کر دیا ہے پر انکی یادوں اور یادداشت پر اسکا اثر غلبہ کم نظر آتاہے ۔
روفن فرانسس اور ٹیلی گرام
وقتِ اشاعت : April 28 – 2016