ڈاکٹر صبور کاکڑ ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان نے کہا کہ بولان میڈیکل کالج میں ایک سوچے سمجھے سازش کی تحت حالات خراب کیے گئے ہیں بولان میڈیکل کالج کہ طلبہ تنظیموں کے درمیان پھوٹ ڈالنے والی ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے پولیس کے لاٹھی چارج کی شدید مذمت کرتے ہیں – چار سے چھ گھنٹے جاری رہنے والی لڑائی میں ڈپٹی کمشنر کویٹہ کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی. متعدد بار رابطے کی کوشش کے باوجود ضلعی انتظامیہ کا ایک بھی ذمہ دار جائے وقوعہ پر نہ پہنچ سکا جسے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سارا تماشہ ضلعی انتظامیہ کے ایما پر ہو رہا تھا
کوئٹہ: بولان میڈیکل کالج میں ایک سوچے سمجھے سازش کی تحت حالات خراب کیے گئے ہیں بولان میڈیکل کالج کہ طلبہ تنظیموں کے درمیان پھوٹ ڈالنے والی میں ڈپٹی کمشنر کویٹہ کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے پولیس کے لاٹھی چارج کی شدید مذمت کرتے ہیں بلوچستان کے قبائلی رسم و رواج سے نابلد اور ناآشنا ڈپٹی کمشنر کویٹہ کا انتہائ منفی کردار ہے جس کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ نے کل جلتی پر تیل کا کام کیا چار سے چھ گھنٹے جاری رہنے والی لڑائی میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی. ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے پولیس کی جانب سے کیے گئے لاٹھی چارج کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ حالیہ واقعے میں، جب طلباء تنظیموں کے درمیان کشیدگی کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، ضلعی انتطامیہ اور پولیس نے اچانک طلبہ پر تشدد شروع کر دیا اور صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔
پولیس کی اس غیر انسانی کارروائی کے نتیجے میں سیکڑوں طلباء زخمی ہوئے جبکہ 100 سے زائد بولان میڈیکل کالج کے طلباء کو گرفتار کر لیا گیا۔ طلبہ کے ساتھ ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن بلوچستان کے ممبرز جو کہ ثالثی کا کردار ادا کرنے ڈاکٹرز کو زخمی اور کچھ کو گرفتار کیا گیا.
ترجمان ڈاکٹر صبور کاکڑ نے کہا کہ بولان میڈیکل کالج میں طلبہ کے امتحانات جاری ہے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حالات خراب کر کے ہاسٹل کو بند کیا گیا ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے امتحانات کے دنوں میں ہاسٹل کو بند کر کے طلباء کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے، جس سے ان کی تعلیم اور ذہنی سکون متاثر ہو رہا ہےـ جس کی وجہ سے طلبہ کو رات گئے ہاسٹل سے نکال دیا گیا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ امتحانات کے دوران طلباء کو ہاسٹل کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔
حکومت بلوچستان، وزیراعلی بلوچستان، وزیر صحت وزیر داخلہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گرفتار طلباء کو فوری رہا کیا جائے۔ طلبہ کے ساتھ گرفتار ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن بلوچستان کے کارکنوں کو بھی کیا جائے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے کردار کی غیر جانبدار تحقیقات کر کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان حکومت کو متنبہ کرتی ہے کہ اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو تنظیم طلباء کے حقوق کے تحفظ کے لیے احتجاجی مہم کا آغاز کیا جائےگا۔
Leave a Reply