کم و بیش گزشتہ بیس ، بائیس سالوں کے دوران بلوچستان میں جاری شورش اور کشیدگی جو غیرجانبدارانہ مکتبہِ فکر کے مطابق مقتدرہ کی جانب سے بلوچ قوم سمیت ملک کی مظلوم اقوام کے ساتھ سماجی ، معاشی اورثقافتی نا انصافیوں کے خلاف اور بلوچ قومی بقا و سلامتی کو قائم و دائم رکھنے کے لیئے ایک مزاحمتی تحریک اور ملک میں محکوم اقوام کے حقوق ، اختیارات ، انسانی اقدار اور آزادیوں کو اگر کْلّی طور پر نہ سہی تو کم از کم 1940ء کی قرار داد کے مطابق جمہوری قوانین و قواعد اور اصولوں کے ساتھ جوڑنے کی شکل میں جاری ہے تاکہ ملک کی بقائے باہم کو لاحق خطرہِ دیدہ دم توڑ دے اور ملک کے تمام اقوام امن ، سکون ، بھائی چارگی ، یکسو حالات کے ساتھ ترقی و پیش رفت کی جانب گامزن رہیں۔ بلوچ قومی جدوجہد کو اس بنیاد پر بھی جمہوری اور اصولی کہنا برحق ہے کہ اِس میں شامل تمام اجزا و عناصر کی نظریں کسی دوسرے اقوام کی آمدن ، وسائل اور زمین پر مرکوز نہیں ۔ یہاں پر یاد رکھنا چاہیئے کہ جن بنیادوں پر بلوچ قومی جمہوری جدوجہد جاری ہے۔ کم و بیش یہ وہی مطالبات ہیں جن کو بنیاد بنا کر بلوچستان سے پرے برصغیر کے مسلم اکثریتی اکائیوں کے عوام اور اقوام نے ہندوستان سے جدا ایک ملک کی حیثیت سے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ان لوگوں (مسلمانوں) کے ساتھ( جو تعداد میں کم تھے) انصاف ہو سکے ، آج بلوچ قوم کے جْہدکار بھی وہی چاہتے ہیں کہ جو کچھ بلوچستان میں ہے اور بلوچ قوم کا ہے اْن پر ترجیحی ادھیکار بلوچ قوم کاہے یہ بھی کہ جو کچھ دوسرے اقوام کا ہے اْن پر وہی اقوام حقوق اور اختیارات رکھتے ہیں ۔اب اگر دیکھا جائے تو یہ مطالبات نہ جمہوریت اور نہ ہی قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ متصادم ہیں جو کشیدگی کی باعث بن جائیں جبکہ مذکورہ آراء اور طرزِ فکر کے برخلاف مقتدرہ اور اْن کے حواریوں کے خیال میں بلوچ قوم کی جمہوری جدوجہد ایک قسم کی بغاوت ، ملک دشمنی اور دہشت گردی ہے ۔
بلوچ قوم کی جمہوری جدوجہد کو بْغضِ معاویہ میں کسی بھی لقب کے ساتھ منسوب کیا جائے اس حقیقت سے انکار پھر بھی ممکن نہیں ہے کہ بلوچ عوام میں مضبوط جڑیں رکھنے کے سبب بلوچ قومی جمہوری جدوجہد ختم یا کمزور ہونے کی بجائے روز بروز وسعت ، استحکام اور ہمہ گیریت کی جانب رواں دواں ہے۔اب اس کشیدہ صورت حال میں ذمہ دار عناصر حالات کی نزاکت کا فہم و ادراک رکھ کر اْن کو معمول پر لانے کے برعکس شتر مْرغ کی طرح سر کو ریت میں دبا کر خطرے کی آمد کے احساس کو قدرت کے حوالے کر دیں یا آگ میں پانی کی بجائے پیٹرول ڈال دیں تو اس پر انسان سوائے اظہارِ افسوس کے اور کیا کر سکتا ہے؟ خطرات پر نا دانستہ کوتاہیوں اور طرزِ تغافل سے زیادہ دانستہ اقدامات کے سبب پاکستان پہلے ہی تقسیم کی کسک سے دوچار ہو کر بنگلا دیش کے قیام کی شکل میں ایک بہت بڑے سانحے اور خلش کی کیفیت سے گزر چکا ہے۔ اْس حادثے اور صدمے بلکہ انسانی تاریخ کے المناک ترین سْبکیوں میں سے ایک کو برداشت کرنے کے بعد ملک کے حکمران اشرافیہ اور مقتدرہ کو سبق حاصل کرتے ہوئے کمزوریوں اور چشم پوشیوں کو دْور کر کے راہ راست پر آ جانا چاہیئے تھا مگر لگتا ہے کہ تجربات سے سبق حاصل کر کے سْدھار یا عقل و ہوش کی جانب گامزن رہنا ہمارے حکمرانوں کے بھاگ میں نہیں ہے، اس کے برعکس ایک ہی دائرے میں چکر کاٹنا اور ایک ہی نوعیت کی سرمستانہ اور پْر خطر آزماشوں سے گزر جانا اِن کے لوحِ محفوظ میں ازل سے کندہ ہے جو صاف ظاہر ہے کہ انسانی دسترس سے باہر اور اٹل ہونے کے باعث مٹائے نہ مٹے اور ہَٹائے نہ بنے اور کیوں نہ ہو ملک کے کوتاہ اندیش مقتدرہ اور منصوبہ سازوں کی سیاست سے لیکر حکومت تک کے مشیران اور ہر کارے جب سرفراز بگٹی اور انوار الحق کاکڑ جیسے ابن الوقت قسم کے لوگ رہیں گے تو حالات میں مثبت تبدیلیوں کی تڑپ اور آثار کو خوابِ غلط سمجھ کر بھول جانا چاہیئے۔آج سرفراز بگٹی منہ میں تَر زبان رکھنے کے سبب کچھ بھی کہیں، آزاد ہیں مگر اِسی سرفراز بگٹی کے ماضی کے بیانات ، گفتگو اور موقف ریکارڈ کی شکل میں محفوظ ہونے کے سبب میڈیا کے پاس گواہ کے طور پر موجود ہے کہ وہ اقتدار کی پْرتعیش لذتوں کو چکنے بلکہ چْوسنے سے پہلے بلوچستان کی موجودہ پراگندہ صورت حال سے نسبتاً بہتر حالات میں کیا کچھ کہتے رہے ہیں۔ آج اگر سرفراز بگٹی کی نگاہ میں بلوچ قوم کی رہبر مہرنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین قصور وار ، باغی ،غدار ، مجرم اور ملک دشمن ہیں تو ماضی قریب میں وہ خود بھی تو کہتے رہے ہیں کہ ریاست کی جبر ، استبداد ، استحصال اور ناروا سلوک سے تنگ آ کر بلوچ قوم کے فرزند بندوق اْٹھانے پر جبراًمجبور کر دیئے گئے ہیں۔ یاد رکھیئے کہ آج سرفراز بگٹی کی زبان ، دماغ ، جبین اور بدن نے مقتدرہ کے تابعِ فرمان کی شکل اختیار کر لی ہے سو اْن کے لیئے بلوچ سیاسی ، جمہوری و پر امن جْہدکاروں اور مزاحمت کاروں سے بد تر ، بد خصلت اور بد رْوح مخلوق دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود نہیں ہے نہ ہی ان سے بڑے خطا کاروں کو دنیا کے کسی بھی کونے اور گوشے میں تلاش کرنا ممکن ہے۔ وہ ماضی کی غیر لچکدار گفتگو کو بھول کر آج بغیر کسی لحاظ کے صاف طور پر کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف ہر قسم کے آہن اور آتش کا استعمال جائز اور برحق ہے ،بلوچ لاپتہ افراد اور کارکنان کی تعداد کے متعلق مقتدرہ کے وظیفوں پر پلنے والے پیالہ خور سرکاری دانشور انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ بلوچ لاپتہ افراد کی تعداد چالیس پچاس سے زیادہ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی کم ترہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لوگ ان کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ اس سرکاری تربیت یافتہ انوار الحق کاکڑ کے جواب میں نامور پشتون صحافی رفیع اللہ کاکڑ صاحب مذکورہ دلیل کو ذلّت اور رسوائی کے بام عروج تک پہنچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چالیس پچاس لاپتہ بلوچوں کی مثال اگر برحق ہے تو ریاست نے عرصہِ دراز تک اس ایشو کو کیوں ایشو کے طور پر لٹکائے رکھا ہے جس سے دنیا میں ریاست کی بدنامی ہو رہی ہے، اگر یہ دعویٰ سچ ہے کہ چالیس پچاس کی تعداد میں بلوچ لاپتہ افراد سرکاری تحویل میں ہیں، زندہ ہیں یا مار دئیے گئے ہیں تو ریاست کو چاییئے کہ وہ ان کے متعلق حق گوئی سے کام لے کر سچائی بیان کرے تاکہ اس سوال پر سیاست کی روش جو گزشتہ دو دہائیوں سے زائد مدت سے جاری ہے، دم توڑ دے۔
ہمارے اْستاد صاحبان سمیت چند دیگر قائدین مشیر بننے کے لیئے کمر کس کر آمادہ بلکہ درخواستی اور فریادی ہیں لیکن اِن فریادیوں کو اِس بنیاد پر حساب میں نہیں لایا جاتا کہ مقتدرہ کو عوام میں ان کے اثر رسوخ اور ان کے پارٹیوں کی مضبوطی کا فہم و ادراک ہے۔ مقتدرہ کو بخوبی علم ہے کہ ان چاپلوسوںکی جڑیں عوام میں نہیں ہیںاور نہ ہی بلوچ قومی جمہوری تحریک کے وابستہ اجزاو عناصر ان کو شمار میں لاتے ہیں جو ان کے ساتھ بامقصد گفتگو پر آمادہ رہیں۔ لہٰذا مشیروں اور نمائندوں کے انتخاب سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مقتدرہ دراصل بلوچ قومی سوال کے حل پر بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے، یہاں پر یہ بھی کہنے دیجیئے کہ نہ صرف بلوچ قومی سوال بلکہ ملک کو درپیش کسی بھی مسئلے کے حل پر مقتدرہ سنجیدہ نہیں ہے اسی کارن پاکستان کی حکومت شہباز شریف کے پاس ہے جو خود محنت کر کے چْور چْور ہو جائے لیکن کام اور کارکردگی کو پھر بھی مقتدرہ کے نام کر دیتا ہے تاکہ ان کی وفاداری استواری کی شرائط کے حدود سے آگے نکل کر دنیا کی تاریخ میں اَنمٹ نام و نشان رقم کر دے اور غیر سنجیدگیوں کے سبب اسحاق ڈار کو بیک وقت ملک کا وزیر خارجہ اور ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے جن کو اپنی زبان اور بیان پر دسترس نہیں ہے اور آزاد گروپ کے لوگ ہیں جو مکان اور زمان کو دیکھے بغیر کچھ بھی کہے دیتے ہیں ۔
اب اِس قسم کی صورت حال میں ملک اور اس میں موجود مذکورہ شکل و شباہت کے سیاستدان ، بھرتی شدہ نمائندے اور تکبر کے خول میں محبوس مقتدرہ بلوچ قوم یا ملک کے مسائل کو کس طرح حل کریں گے۔ اس تمام تر تفصیل سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ سوال اور مسئلے کو نہیں سمجھتے بلکہ یہ ہے کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدہ ہیں اور نہ ہی اس کو حل کرنا چاہیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک دانشور کو سننے کا موقع ملا وہ بجا اور برحق طور پر فرما رہے تھے کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدرہ کو پتا نہیں ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے ،ہر کوئی آکر تجاویز دیتا ہے جبکہ اصل مسئلہ بلوچستان میں بلوچ قومی شناخت اور ہستی کا سوال ہے ،باقی تمام مسائل اور قضیئے اِس سوال کے ساتھ نتھی ہیں۔
Leave a Reply