پی ٹی آئی ایک طرف احتجاج کو آخری معرکہ قرار دے رہی ہے تو دوسری جانب مذاکرات و مطالبات کی بات بھی کررہی ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی بات کرنا چاہتی ہے جو بانی پی ٹی آئی کی خواہش ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ کسی سے بات چیت نہیں کرینگے، نقص امن میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، معاشی و سیاسی استحکام کو مضبوط کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ ہیں۔
لہذا اب حکومت نے بھی پی ٹی آئی کے احتجاج کے خلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے، سیکیورٹی کے انتظامات مکمل کئے جارہے ہیں ۔
24 نومبر کو پی ٹی آئی اسلام آباد میں احتجاج کرنے جارہی ہے جبکہ بانی پی ٹی آئی کی بیگم بشریٰ بی بی اس تمام تر احتجاجی معاملے کی سربراہی کررہی ہیں اور پارٹی رہنماؤں کو ہدایات جاری کررہی ہیں۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھاکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، دھمکیوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، خیبرپختونخوا حکومت سے سرکاری معاملات پر رابطہ رہتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر پیش ہوئے، عدالت نے جو بھی فیصلہ دیا اس پر عمل کریں گے، ایس سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر بھی احتجاجی کیفیت تھی۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ریڈزون اور ڈی چوک کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ ہے، عوام غور کریں ،ہر اہم قومی موقع پر احتجاج کی کال کیوں دی جاتی ہے؟ خاص مواقع پر احتجاج اور دھرنوں کی کال کیوں دی جاتی ہے؟ بیلاروس کا وفد بھی 24نومبر کو اسلام آباد پہنچ رہا ہے، امن و امان یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے، احتجاج کو کوئی نہیں روکتا، اسلام آباد آکر ہی احتجاج کا کیا مقصد ہے، اگر آپ نے احتجاج کرنا ہے تو جہاں آپ ہیں وہیں احتجاج کریں، اسلام آباد آکر احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ این او سی کے بغیر جلسے جلوس کی اجازت نہیں دے سکتے، میں اس حق میں ہوں کہ بات چیت ہونی چاہیے، کسی ایک پارٹی سے نہیں، جس کو بھی کوئی ایشو ہے بیٹھ کر بات کرنی چاہیے، ڈیڈلائن تب ہوتی ہے جب مذاکرات ہوتے ہیں،کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ دھمکیاں دیں اورپھربات چیت کریں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور بیرسٹرگوہر کل بھی بانی پی ٹی آئی سے ملے تھے، اگر وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے تو وہ بتائیں، اگر یہ کہیں گے کہ دھرنے دیں گے تو کسی صورت مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ افغان شہریوں کی سرگرمیوں پر بھی نظر ہے، افغان مہاجرین کا احتجاج میں شامل ہونا سمجھ سے بالاتر ہے، پاکستانیوں کا احتجاج تو سمجھ آتا ہے، افغان بھی یہاں نکل کر احتجاج کرتے ہیں، گرفتار ہر 100 میں سے بیس پچیس افراد افغان نکلتے ہیں، پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان شہری موجود ہیں، آئندہ چند دنوں میں اسلام آباد میں افغان شہریوں سے متعلق پالیسی بنائیں گے۔
بہرحال پی ٹی آئی پہلے بھی احتجاجی دھرنے اور مظاہرے کرچکی ہے مگر کوئی بھی نتیجہ نہیں نکلا محض انتشار پھیلانے اور بانی پی ٹی آئی کو باہرنکالنا ہے جس کیلئے اس طرح کے سیاسی دباؤ کا حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اس احتجاج سے بھی پی ٹی آئی کو نقصان اور سیاسی خسارے کے سواء کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔
اب پی ٹی آئی اندرون خانہ خود تقسیم کا شکار ہے ،بشریٰ بی بی نے جو ہدایات دی ہیں اس سے بعض پی ٹی آئی رہنماء خوش نہیں ہیں۔
24 نومبر کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ بعض رہنماء پی ٹی آئی سے الگ ہوسکتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ 24 نومبر کو پی ٹی آئی لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرسکتی ہے یا پھر احتجاجی غبارے سے ہوا نکل کر پی ٹی آئی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگی ۔یہ احتجاج کے بعد ہی واضح ہوگا۔
پی ٹی آئی کا 24 نومبر کو اسلام آباد دھرنا،پارٹی میں اختلاف ، حکومت کا سخت ایکشن لینے کا فیصلہ
وقتِ اشاعت : 11 hours پہلے
Leave a Reply