|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

زندگی میں پہلی فلم جو “صدیوں پہلے” ہم نے بڑے شوق کے ساتھ دیکھی تھی وہ انڈین فلم “آوارہ” تھی۔ اور جب سے یہ “آوارہ گردی” ہماری جان سے اٹکی ہوئی ہے۔

بزرگی کا “اعزاز” حاصل ہونے کے باوجود ٹک کر ہم سے کہیں بیٹھا نہیں جاتا۔ سو ہم ٹہرے آوارہ گرد لیکن قابل احترام حیثیت رکھنے والی دو ادبی شخصیات عیسیٰ بلوچ اور اصغر لعل (کچھ زیادہ) شرافت اور مروت میں ہمیں تنہا نہیں چھوڑتے کہ مبادہ “گردی گردی” میں کہیں گر کر لڑھک نہ جائیں!
پچھلے سال نومبر کے مہینے میں یہ ہمیں وادی کوئٹہ (جسے ہمارا نوجوان طبقہ قدیمی اور تاریخی نام ‘شال’ کہنے پر اصرار کرتے ہیں) لے گئے تھے جہاں فکری۔ ادبی اور صحافتی حلقوں میں ان کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی عزت و احترام کے قابل سمجھ کر پذیرائی دی گئی تھی جو کوئٹہ والوں کی غیرمعمولی کشادہ دلی کا مظہر ہے۔
کسی زمانے میں ہم کراچی والوں کی شناخت اور صفت بھی یہی تھی جو ہم جیسوں کی “کارستانیوں” اور ارباب اختیار کی “شاباشیوں” کی وجہ سے تقریباً اب مفقود ہوچکی ہیں۔ چونکہ ہمیں کشادہ دل لوگ اچھے لگتے ہیں اس لئے ہم نے رواں سال کے اسی ماہ ایک بار پھر اپنے ان دو مہربانوں کو کوئٹہ یاترا پر “اکسایا”۔
اس مرتبہ بھی ہمیں کوئٹہ پریس کلب کا مہمان بننے کا اعزاز ملا۔ کلب کے صدر عبدالخالق رند، سیکریٹری بنارس خان کے ساتھ ساتھ معروف سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار مرحوم صدیق بلوچ کے فرزند آصف بلوچ (جو روزنامہ آزادی اور انگلش ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں)، ڈان کے اکبر نوتزئی کے علاوہ مختلف ٹی وی چینلز کے بیورو چیفس ایوب ترین، عرفان سعید، شہزادہ ذوالفقار اور سلیم شاہد و نادر علی اینڈ پارٹی نے ایک لمحے کے لئے بھی اس خوبصورت وادی میں ہمیں اجنبیت کا احساس نہ ہونے دیا۔ بہت ہی پیارے لوگ ہیں۔
کوئٹہ میں ہم کہاں کہاں گئے۔ شامیں ہم نے کہاں گزاریں۔ کن کن ادبی اور فکری شخصیات کی علمی بصیرتوں سے ہمیں آگاہی ملی یہ سب روداد ہمارے ساتھی اور اردو کے ترقی پسند شاعر عیسیٰ بلوچ نے بہت ہی دلچسپ انداز میں تین چار قسطوں میں فیس بک پر پہلے ہی”نشر” کر دئیے ہیں۔
ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ معروف اسکالر، ماہر تعلیم، رائٹر اور بلوچستان میں دریافت شدہ ہزاروں سال پرانی تہذیب “مہر گڑھ” کی دریافت کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی سمینارز اور ورکشاپس میں مقالے لکھنے اور پیش کرنے والی قابل قدر شخصیت ایوب بلوچ کو گزشتہ سال کی طرح پوری طرح صحت یاب اور ہشاش بشاش پا کر ہمیں بے حد خوشی ہوئی۔ البتہ بی ایس او کے بانی اراکین میں شامل اور انگریزی، بلوچی اور اردو زبانوں کے ادیب و افسانہ نگار ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی صحتیابی کے مراحل سے گزرتے ہوئے ہمیں کچھ کمزور نظر آئے۔ بلوچ معاشرے کے یہ ہیرے جیسے لوگ ہمارے لئے قابل تعظیم اور قابل فخر ہیں۔
چالیس سے زیادہ فکر انگیز کتابوں کے مصنف اور مترجم اور مارکسی دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری ایک غیر معمولی “تحریری اسٹیمنا” کی صلاحیتوں سے آراستہ ایک بہت ہی متحرک و پرکشش شخصیت ہیں جن کو اس سال بھی ہم نے باصلاحیت اور پرعزم نوجوانوں کو نظریاتی درس دیتے پایا۔ یہیں پر سنگت اکیڈمی آف سائنسز سے وابستہ عابدہ رحمان، عابد میر، جاوید اختر،جمیل بزدار، نجیب اورانس جیسے کچھ اور نوجوانوں کو انہماک سے ڈاکٹر صاحب کی تعلیم سے روشناس ہوتے دیکھا گیا۔
بلوچی اکیڈمی کوئٹہ ایک گورنمنٹ فنڈڈ ادارہ ہے جو کئی سالوں سے بلوچی زبان و ادب کی پرورش کرتا چلا آرہا ہے۔ اوسطاً تیس کتابوں کی اشاعت کا اہتمام ہر سال ہوتا ہے۔ یہاں ہزاروں کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری بھی ہے جس سے طلباء اور تحقیق کار مستفید ہوتے ہیں۔ پچھلے سال کی طرح اس بار بھی ہم نے بلوچی اکیڈمی میں حاضری دی۔ اکیڈمی میں ممتاز یوسف اور شرف شاد نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے ادارہ کی کارکردگی کے بارے میں بریف کیا اور ایک طرف تو “اچھی خبر” دی کہ ادارے کا پورا ریکارڈ ڈیجیٹل ہونے کا پروسیس جاری ہے اور دوسری جانب یہ “بری خبر” بھی سنائی کہ بلوچستان گورنمنٹ نے ادارے کا سالانہ گرانٹ اب کم کردیا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے علم و ادب کی شمع جلتے رہنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان کے ساتھ ہماری نشست اچھی رہی جو ایک دوسرے کے لئے نیک تمناؤں کے تبادلہ کے بعد اختتام کو پہنچی۔
ڈاکٹر علی دوست بہت ہی بااخلاق ،نفیس اور دلبر شخصیت کے مالک ہیں۔ اردو اور بلوچی ادب میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ نثر کے علاوہ شعر و شاعری سے بھی لگاؤ ہے اور بلوچی زبان میں افسانے بھی تحریر کرتے ہیں۔ اردو اور بلوچی کے کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ وہ اردو روزنامہ جنگ کوئٹہ میں ادبی تخلیقات اور سرگرمیوں سے متعلق ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں۔ پچھلے سال کی طرح اس مرتبہ بھی ان سے ادبی بیٹھک رہی۔ جب ہم نے انہیں اپنی کتاب “ایک لاپتہ شہر کا سراغ” پیش کی تو وہ ہماری “سراغرسانی” پر پہلے حیران اور بعد میں بہت خوش ہوئے جس کا اظہار انہوں نے بہت ہی دلفریب الفاظ میں کیا۔ پھر انہوں نے یہ بتایا کہ ان کی لکھی ہوئی “بلوچی دیوان” اول و دوم کے بعد تیسری جلد بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ کافی دیر تک ان سے مختلف ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔ ان کے ساتھ یہ نشست بہت حوالوں سے یادگار رہی۔
بلوچی ثقافت و ورثہ کے علمبردار عبدالقادر رند حال ہی میں گورنمنٹ سروس سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے گھر میں ایک “پرائیویٹ میوزم” بنایا ہوا ہے جس میں بلوچی طرز زندگی سے متعلق مختلف قسم کے ثقافتی نوادرات سجا رکھے ہیں اور ساتھ ساتھ بلوچی تاریخ سے متعلق سینکڑوں پرانی اور نئی کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی وہیں قائم کردی ہے۔ پچھلے سال کوئٹہ یاترا کے دوران ان سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ کراچی گئے ہیں۔ اس مرتبہ وہ ہمیں اپنے میوزم و لائبریری لے گئے جہاں ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ تنہا ایک فرد نے (ذوق و شوق کے ساتھ) کیسے اپنے ذاتی وسائل استعمال کرکے بلوچ قومی ورثہ جات کو اپنے گھر میں محفوظ کردیا ہے جبکہ یہ فریضہ ریاستی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
دوسرے دن عبدالقادر رند ہمیںDirectorate of Archaeology & Museums (Balochistan Archives Preserving Our Past) لے گئے جہاں ماضی میں انگریزوں کے تیار کردہ 14 اگست 1947 تک بلوچستان سے متعلق روزانہ سیکریٹ رپورٹس اور سماجی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی ریکارڈز ہم نے بہت ہی سلیقے اور پوری ذمہ داری کے ساتھ محفوظ ہوتا دیکھا۔ پتہ چلا قیام پاکستان کے بعد اس قسم کا ریکارڈز رکھنے کی روایت کو مناسب نہیں سمجھا گیا ہے! عبدالقادر کے ساتھ ایک شام ہم نے ان کے کیفے ڈان میں بھی گزاری جہاں بلوچی ثقافت کے مختلف رنگ نمایاں نظر آئے اور ساتھ ساتھ گراموفون سے لتا منگیشکر کی دلکش آواز میں پرانی فلموں کے نغموں نے ماحول کو بہت پرسکون بنادیا تھا۔
یار جان بادینی اپنے نام کی طرح یارباش اور کھلے دل کے مالک ہیں۔ بہت ہی فراخدل اور پیارے آدمی ہیں۔ ہم جب بھی ان سے ملتے ہیں تو اپنائیت کا احساس ابھر آتا ہے۔ پچھلے سال کی طرح اس بار وہ چند گھریلو مصروفیت کی وجہ سے ہمیں نوشکی تو نہیں لے جا سکے لیکن ہمارے ٹور کے آخری دو دن ہم ان کی (محبتوں سے بھرے) “تحویل” میں رہے۔ یارجان کمال کے آدمی ہیں کہ ان کی ساری توجہ اور توانائی دنیا بھر میں بلوچ قوم کی تلاش میں صرف ہوتی ہے۔ افریقہ، ازبکستان اور سینٹرل ایشیا جاکر یارجان نے کھوج لگا کر ایسے بلوچوں کو “دریافت” کیا جن کے آبائواجداد ایک دو صدی پہلے بلوچستان سے وہاں ہجرت کرچکے تھے۔ ان موضوعات اور وہاں کے طرز زندگی پر وہ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ ان کا ماہانہ رسالہ “بلوچی زند” بغیر کسی ناغہ کے پچیس سال سے زیادہ عرصے سے شائع ہورہا ہے۔ وہ ہر ماہ انگریزی زبان کا ایک میگزین Monthly Balochistan Today بھی شائع کرتے ہیں۔ بہت محنتی اور متحرک محقق، صحافی و ادیب ہیں جو بلوچ کاز کے لئے ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ مہمان نواز تو ایسے کہ ہم جیسے کراچی سے آئے بیکار “آوارہ گردوں” کو بھی آنکھوں میں بٹھا دیتے ہیں۔
ہم آوارہ گردوں کی ڈائری اب ختم ہونے کو ہے۔ کوئٹہ والوں کی محبتوں کو سمیٹ کر 18 نومبر کو یہ بدھو لوٹ کر گھر کو آئے۔ زندگی رہی تو اگلے سال نومبر میں ایک اور ڈائری کے ساتھ پھر حاضر ہونگے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *